تحریر : شاہ بانو میر ایک وڈیو نظر سے گزری جس میں بظاہر کوئی خاص بات نہیں ہے٬ ایک ملازم بالٹی میں موجود دانہ ایک بڑے سے صحن میں پھیلاتا ہے٬ اور اس کے بعد طوطوں کے غول کے غول یا جھنڈ کے جھنڈ آئے اور چگنے لگے٬ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے؟ جسے بحث میں لایا جائے٬ مجھے قرآن پاک سے سوچنے کی عادت ہو رہی ہے٬ اب ہر بات کو بادی النظر میں نہیں دیکھا جاتا اور ذرا سا غور کرنے سے مجھے اللہ کی قدرت اور کئی اس کے کئی راز عیاں ہوتے دکھائی ہوتے ہیں٬ یہ ملازم جو خود اپنے حلیے سے کسی کا دستِ نگر دکھائی دے رہا تھا٬ اس کا مالک یقینی طور پے نیک ہوگا ٬ اس کی نیت میں اس عمل کیلیۓ صرف اللہ سے جزا کی سوچ ہوگی٬ اس صحن کی حالت اور وہاں موجود ان پرندوں کے گندگی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ روزمرہ کا معمول ہے ٬
جس فراخدلی سے یہ دانہ بڑے سے صحن میں پھیلایا گیا٬ وہ عکاسی کرتا ہے مالک کی وسیع النظری کی٬ اللہ پاک نے اس شخص کے دل میں ان طوطوں کیلیۓ رحم ہمدردی ڈالی ورنہ تو اربوں کھربوں پرندے صبح سویرے اڑان بھرتے اور اپنے حصے کا رزق اپنی محنت سے چگتے ٬ پھر ان کا رزق بھی تو اسی اللہ کے ذمےّ ہے ٬ لیکن ان کیلیۓ آسانی پیدا کر کے ان کو اڑان بھر کے قدرت نے دور دراز جانے سے کسی مصلحت کےتحت روک دیا گیا٬ دوسری طرف وہ انسان جس کا اتنا بڑا گھر اتنا فراخ رزق ان پرندوں کے آگے بکھیر رہا جن کا اسے کوئی فائدہ نہیں ٬ نہ وہ انڈے دیتے ہیں کہ جو اس کے لئے فائدہ مند ہوں٬ نہ ان سے دودھ حاصل کہ اس کیلیۓ فائدہ ہو نہ ان کا گوشت کھایا جا سکتا٬ پھر یہ مہربانی کیوں؟ یہاں ذہن میں وہی آیت گونجتی ہے پس اے جن و انس!!!! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے٬
اب آتے ہیں دوسرے پوائنٹ پر سب سے پہلے دور دور بکھرے ہوئے منتظر طوطے یکدم دانہ کو محسوس کر کے قریب اکٹھے ہونا شروع ہوگئے٬ جیسے ہی دانہ پھیلانے والا آدمی نظروں سے اوجھل ہوا ٬اس کے بعد انہوں نے اڑان بھری اور صحن میں جانے کیلیۓ پر تولنے لگے٬ یوں محسوس ہوا جیسے فضا نے سبز درختوں کا سبز چوغہ پہن لیا٬ اور پوری دنیا سے طوطوں کی بارات اکٹھی ہوکر صحن میں باقاعدہ سیاسی اراکین کی طرح جلسے کی صورت اکٹھے ہو کر دانہ چگنے لگے٬ دانہ چگنے کے دوران کوئی کسی کو ٹھونگا نہیں مار رہا کوئی کسی کو کم یا زیادہ چگنے پر ہدفِ تنقید نہیں بنا رہا٬ سب سر نیچے گرائے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے پیٹ پوجا میں مصروف تھے٬ اسی دوران میں ان کی آپس کی ٹیلی پیتھی پے حیران ہوتی ہوں کہ کیسے یہ اکٹھے جست بھرتے ہیں اور چشمِ زدن میں اکٹھے ایک ساتھ فضا میں بلند ہوتے٬ ان کی اتنی جلدی واپسی کی سمجھ نہیں آسکی لیکن دوسری بار وڈیو دیکھی تو بے ساختہ ان پے پیار آیا ممتا ان کے گھونسلوں میں شائد معصوم بچے ہوں گے وہاں ان کیلیۓ چونچ میں دانہ چگ کر ان کی بھوک مٹانے جا رہی
ALLAH
تھیں٬ سبحان اللہ پس اے جن وانس!!! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے دانہ کیسے منٹوں میں ختم ہوا اس پر حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ تعداد سامنے تھی٬ وڈیو اتنی ہی بنی ہوئی تھی٬ لیکن میرے سوچنے کیلیۓ کئی سوال تھے؟ ہم لوگ اپنی پوری زندگی اسی کشمکش میں گزار دیتے کہ اب یہ بھی چاہیے اب وہ بھی چاہیے حِرص نے ہماری نسلوں کو برباد کر دیا٬ انصاف کے نظام کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہم مخصوص تعداد میں کامیاب اور بڑی تعداد میں مستحق افراد کو ناکام ثابت کر دیتے٬ صرف کس لئے؟ کچھ رقم کیلئے ؟ کچھ سرمایہ مستقبل کے نام پر؟ زندگی کے ہر شعبے میں ہر وہ انسان جو سیدھا چلتا ہے اسے سادہ یعنی بیوقوف کہا جاتا ہے ٬ اور کامیابی کا اعلیٰ درجہ اس کو دیا جاتا ہے ٬ جس کے ایک چہرے پر کئی چہرے لگے ہوتے؟ اور ہم سب بڑھ چڑھ کر ہر اس من گھڑت بے بنیاد وجود کو مفید کچھ دے لے کے ثابت کروا دیتے٬ کس لیۓ؟ اسی پیٹ کیلیۓ جسے بھرنے کا اہتمام ان پرندوں کے خاندان کے کسی فرد نے نہیں کیا؟ ایک اللہ کے خُدا ترس بندے نے اللہ کے کہنے پر کیا٬ تو پھر ہم قانع کیوں نہیں ہوتے؟ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ کسی بھی غلط ناجائز فعل کے سرزد ہونے سے کس قدر تباہی معاشرے میں پھیلتی ہے٬ اور جو ہم ناجائز رقم یا فائدہ حاصل کرتے ہیں تو کیا ہمارا رب ان بے زبانوں کیلئے اہتمام کر سکتا ہے تو کیا وہ رحیم و غفور ہمارے رزق کے لیۓ کچھ نہیں کرے گا؟ جیسا گمان ویسا انعام ہم آج اس رب کو بھول کر زمینی خداؤں کو قریب دیکھ کر جلد اور فوری انعام میں نجانے کس دنیا کو تخلیق کر رہے٬ جس میں سوائے تصنع ذاتی مفاد کے اور فریبِ نظر کے علاوہ قبر میں عذاب کی شدت کے بڑھاوے کے اور کچھ نہیں رکھا٬ جس نے کسی برائی میں حصہ ڈالا اور جو اس برائی کو روکے نہ ٬ اور خاموش رہے سزا سب پر واجب ہے٬ لیکن موجودہ حرصِ ہو ہوس کی دنیا میں ہم نے قبر کو بہت دور سمجھتے
حالانکہ اگلی سانس کا بھروسہ نہیں ہے٬ آخر ہم کیوں پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلیۓ حرام حلال کا ذخیرہ کر کے نہ صرف آج اس دنیا کو جہنم بنا رہے٬ بلکہ اپنے اپنے حصے کی نالائقی کو ہر شعبے میں ظاہر کر کے بوسیدہ بساند زدہ نظام بنا رہے جہاں ہر گندگی کو ہم قالین کے نیچے کرتے ہوئے نئے رنگ و روغن سے بوسیدگی کو چھپا رہے٬ لیکن وہ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ٬ وہ اس سے بخوبی باخبر ہے٬ اور ایک ایک بات لکھ رہے ہیں لکھنے والے٬ نجانے کیوں آج اس وڈیو نے مجھے کئی سبق یوں دیے ٬ کہ اگر انتظار میں سب خاموش ایک دوسرے سے فاصلے پر تھے تو نعمت کے ملنے پر کوئی کسی کو دور کرتا نہیں دیکھا ٬ کہ سب میں اکیلا ہڑپ کر لوں٬ جیسے ہماری فطرت کا خاصہ ہے٬ سب طوطے ویسے ہی اکٹھے پیٹ بھر رہے تھے اور پھر اسی یکجہتی کے ساتھ اڑان بھر کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیے٬ ہمارے گھروں کے بیجا اسراف شائد ہمیں خودغرض اور حریص بنا دیتے ہیں ٬ زندگی میں سادگی ہو تو تو دوسروں کیلئے ان کی قابلیت کیلیۓ دل و دماغ میں گنجائش زیادہ رہتی ہے٬ لیکن جہاں ذات کی برتری مقصد پر حاوی ہو وہاں بے مقصد نظام وجود پاتا ہے جس میں ہر بات کھوکھلی اور ذات کے حصار میں مقید رہ کر بڑے مقصد کو نچلی سطح پر لا کر چھوٹا عمل سامنے لاتی ہے جو بڑے اداروں کیلیۓ زہرِ قاتل ہے اور بڑے مقاصد کی موت ہے٬ آئیے ان پرندوں سے کچھ تو سیکھیں بھوک میں ساتھ تھے تو رزق کی فراہمی پر ایک دوسرے کے ساتھ بھی تھے٬ ویسے ہی واپس گئے جیسے نعمت ملنے سے پہلے تھے٬ چھینا جھپٹی سے عاری پرسکون مکمل عمل ٬ ان کی یکجہتی کا راز ایک اہم بات رہ گئی اللہ کا بہت بار شکر ادا کیا ٬ جب یہ چونچ سے دانہ چُگ رہے تھے تو فرش پر موجود ان کی بکھری ہوئی گندگی بھی ان کی خوراک کے ساتھ شامل ہو رہی تھی٬ اس وقت اللہ پاک کا خاص شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں شعور اُس نے ایسے اعضاء عطا کئے کہ دائیں ہاتھ سے ہم احسن کام کرتے ہیں اور بائیں سے قدرے کراہیت والے ٬ یہ سب اس کا کرم ہے ٬
اگر ہمارے اندر حس نہ ہوتی تو؟ ئیہی نظارہ ہم بھی ایک دوسرے کا دیکھ سکتے تھے بات یہیں ختم ہوتی ہے پس اے جِن و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ آئیے شعور کے ساتھ احساس کریں ذات کے اندر موجود خامیوں کی کھوج لگا کر خود کو بہتر کریں ٬ اپنی خامیوں کا ادراک کرنا مشکل عمل ہے اور اصلاح کا حوصلہ لیکن کسی اور کیلئے تو نہیں صرف اپنے لیے دعا ہے کہ مجھ سے سب اچھے ہیں خوبیوں کی دولت سے مالا مال مگر معاشرے میں پیدا ہوتی خطرناک خرابیاں نجانے کاہں خطرے کا گھنٹہ بجا کر بتا رہی ہیں کہ ہم شائد آسمان کے خُدا کو بھول کر زمینی خداؤں پر یقین کرنے لگے٬ اور بھول گئے کہ آسمان کے خُدا کی رسی دراز ہے لیکن انصاف بھی لاجواب اور بے مثال ہے٬ اسی معاشرے کا حصہ ہونے کے حوالے سے کسی کا تو نہیں اپنا کہہ سکتی ہوں کہ اپنی ذات میں اتنی خامیاں دکھائی دیتی ہیں٬ کہ صرف اس خالقِ کائنات سے دعا ہے٬ کہ اگر ان میں سے کوئی بھی غلطی کوتاہی میری ذات میں ہے اور کسی کو بھی میرے کسی فعل سے نادانستہ طور پے تکلیف پہنچی ہو تو اللہ ربّ العزت سے دعاخاص ہے کہ وہ مجھے ان خامیوں پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان پرندوں کی طرح حرص اور ذات کے حصار سے آزاد کر کے زندگی کوئی مقصد حاصل کرلے اور کچھ نہیں تو دین اسلام کی کوئی ایسی خدمت جو آخرت میں ذریعہ نجات بن سکے آمین