شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے کام آتے ہیں دوسروں کے
یقینا دنیا نیک لوگوں سے ہے، جہاں نیکی بدی ساتھ چل رہے ہیں ،دن رات ساتھ چل رہے ہیں ،صبح وشام ساتھ چل رہے ہیں وہاں اچھے لوگوں کی بدولت دنیا میں دولت کی فراوانی ہے بلکہ یوں کہیے کہ اگر دنیا میں نیک لوگ نہ ہوں تو دنیا ختم سمجھیں۔انہی خداترس لوگوں میں چند افراد نے مل کر پاکستان کے معروف لکھاری جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں تاہم ان کی تحریریں اب بھی دکھی انسانیت کی آواز ہیں ”منوبھائی”کے ایک عدد کالم جو انہوںنے ایک معذور بچی کے لئے لکھاتھا جسے آج سے 27سال قبل ایک مقام سے دوسرے مقام جانے کے لئے وہیل چیئر کی ضرورت تھی۔یہ کالم پاکستان کے ایک معروف روزنامے کی زینت بنا اور پھر انہی صاحب ثروت لوگوں کی نظر سے گزرا جنہوںنے مل کر اس معصوم بچی کی مدد کی۔پھر کیا اللہ تعالیٰ جن سے کام لیتا ہے ان کے لئے راستے کھول دیتا ہے۔انہی لوگوں نے مل کر اس کار خیر کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے اپنی مدد آپ کے تحت معاشرہ کے انتہائی اہمیت کے حامل لوگوں کی مدد کتنی آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔جیسے ہر سوچ کے لئے ایک عمل ضروری ہوتاہے ،جیسے کسی سفر کے لئے منز ل کا ہونا لازم ہے۔
ٹھیک اسی طرح انہیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت تھی جہاں سے یہ لوگ اپنی ان کوششوں کو مستقبل میں بھی جاری رکھتے ،انہی صاحب ثروت لوگوں نے مل کر اپنی سوچ اور عمل کو ”مسلم ہینڈز ”کانام دیا۔ مسلم ہینڈز جو اس وقت دنیا کے پچاس ممالک میں زندگی کے مختلف شعبوںمیں کام کررہی ہے،جن میں تعلیم سرفہرست ہے،چونکہ بزرگوں سے سنتے آرہے ہیں کہ معاشرہ دراصل تعلیم یا علم ہی مرہون منت ہے،اور پھر آقائے نامدار احمد مجتبیٰ محمد مصطفیۖ کا ارشاد ہے کہ ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد ووعورت پر فرض ہے”۔اس ارشاد کے بعد تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آقائے نامدار ۖ نے علم یا تعلیم حاصل کرنے پر کتنا زور دیاہے،تاہم معاشرہ چونکہ انسانوں کی مرہون منت ہے اور انسان ہی اسے مل کر تشکیل دیتے ہیں اس لئے کبھی کبھار معاشرہ میں چند افراد ایسے بھی رہ جاتے ہیں جو تعلیم یا علم کی روشنی سے استفادہ حاصل نہیں کرپاتے ۔یہ اس معاشرہ کی بدبختی کہیے یا اس میں رہنے والے انسانوں کی غفلت ،بہرکیف اگر معاشرہ میں رہنے والے تمام افراد مل کر تعلیم عام کرنے کے لئے عملی جہاد کریں تو کوئی شک باقی نہ رہ جائے گا کہ ہمارا معاشرہ یاپھر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہ کرپائے ،دوسرے الفاظ میں مستقبل اسی میں پنہاں ہے اگر کوئی سمجھے۔جیسا اوپر ذکر ہوا کہ ہمارے معاشرہ میں چند افراد ایسے بھی دیکھے جاتے ہیں جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا یاپھر والد یا والدہ میں سے کوئی ایک ۔ایسے میں کسی بچے یا بچی کا تعلیم جاری کتنا کٹھن مرحلہ ہوگا ،ایک باشعور انسان صرف تصور ہی کرسکتاہے ،مگر یہ بھی انسانیت کے زمرے میں ہرگز ہرگز نہیں آتا کہ زندگی کی کشتی میں ان افراد کو شامل نہ کیا جائے، جن کا معاشرہ سے کٹ جانا پکا پکا لکھا ہوتا ہے۔
تاہم اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو ان افراد کا خیال ضرور بالضرور ہوتاہے اور جیسا کہ ”مسلم ہینڈز ”کو ہے،مذکورہ ادارے کی بدولت پاکستان بھر میں کل 45000بچے زیورتعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں جن کے لئے مسلم ہینڈز کے قائم کردہ سکولوںمیں کل 1700معلمین اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،یعنی ایک معلم 26بچوں کو علم سے روشناس کرنے میں مصروف ہے ،تو یقینا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ ادارے کے قائم کردہ سکولوںمیں یتیم بچے بہترین تعلیمی ماحول اور اعلیٰ اور قابل اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔کیونکہ عالمی معیارکے مطابق ایک استاد کے جماعت یا کلاس میں کل 25بچوں کا ہونا نہایت ضروری ہے ،اس لئے یہاں مسلم ہینڈز کے شرو ع کردہ اس کارخیر میں وہ داد کے مستحق ہیں کہ ان کی جانب سے شرو ع کردہ سکولوں میں عالمی معیار کو مدنظر رکھا جارہاہے۔نہ صرف یہ بلکہ ان بچوں کو اخلاقی تربیت میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جاتی تاکہ مذکورہ اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے آگے جاکر مختلف شعبہ جات میں ملک وقوم کی خدمت میں اپنا سب کچھ لگادیں۔اسی ادارے کی جانب سے گزشتہ روز ہمارے استاد محترم ،معروف کالم نگار اور ماہر تعلیم سلیم آفاقی کی جانب سے ایک برقی پیغام موصو ل ہواکہ جس میں انہوںنے مسلم ہینڈ ز سکول آف ایکسلینس میں یتیم بچوں میں عیدی تقسیم کرنے کے حوالے سے بات کی،ابھی انہوںنے بات ہی چھیڑی تھی کہ ہم نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا جناب آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔ہم بھلا کیسے آپ کو انکار کرسکتے ہیں،آپ ہمار ے استاد محترم ہیں ہم نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
اس پر انہوںنے کہاکہ چلئے کل ملتے ہیں ۔اگلے روز ان کے بتائے ہوئے مقام پر ہم وقت سے پہلے پہنچ گئے ،جہاں ان کے سا تھ سینئر قانون دان اور معروف کالم نگار روشن خٹک ہمارے منتظر تھے،ان سے سلام دعا کے بعد ہم مذکورہ مقام کی جانب روانہ ہوئے،ابھی تھوڑی ہی دو ر گئے تھے کہ مذکورہ ادارہ جہاں ہم نے اپنا پڑائو ڈالنا تھا ہماری آنکھوں کے سامنے تھا،ہم روشن خٹک کی ٹھنڈی ٹھنڈی گاڑی سے اُترے تو سکول کے ایک معلم نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا،ہم سیدھے پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوئے جہاں مسلم ہینڈز خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر رحیم اللہ صاحب ہمارے منتظر تھے،کچھ ہی دیر بعد تقریب کا باقاعدہ آغازہوا،جس میں ہم نے دیکھا کہ واقعی مسلم ہینڈز خدمت خلق میں مصروف ہے،صحن طلباء و طالبات،اساتذہ ،والدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔تاہم ان طلباء وطالبات کو دیکھ کر کوئی تصو ر نہیں کرسکتا تھا کہ ہمارے سامنے دراصل یتیم بچے بچیاں ہیں۔ماشاء اللہ ان کا لباس ،ڈھنگ وغیرہ سے ہر کوئی یہی خیال کرتا کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کے پھول ہیں۔مگر قدرت کے رنگ وکھیل نرالے۔ہمارے سامنے جو بچے بچیاں موجود تھے وہ سب کے سب یتیم تھے۔دل تھوڑی دیر کے لئے افسردہ ضرور ہوا کہ یہ بچے بچیاں باپ کی شفقت اور پیار سے محروم ہیں مگر یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کے چہروںپر مایوسی کی کوئی علامت موجود نہ تھی۔ان کے چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ ہم نے ملک خداداد کے نام کو روشن کرنا ہے۔
ہم نے اپنے اردگر د معاشرہ کو تشکیل دینا ہے ۔مذکورہ بچوںمیں ہر سال کی طرح امسال بھی فی بچہ 1360روپے کی رقم تقسیم کی گئی ،تاکہ یہ معصوم پھول ،کلیاں یہ تصور نہ کرسکیں کہ ہماری عیدی معاشرہ کے عام بچوں کی طرح کیوں نہیں۔بہرکیف مسلم ہینڈز کی کاوشوں پر جتنی بات کی جائے کم ہوگا مگر ان کے لگائے ہوئے یہ پودے کل کو تنا ور درخت بن کر معاشرہ کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گے۔انشاء اللہ۔یادرہے کہ مسلم ہینڈز اسکے علاوہ صاف وشفا ف پانی کی فراہمی پر بھی کام کررہاہے جو کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اسی تناظر میں مسلم ہینڈ ز کی جانب سے گزشتہ برس 3183ہینڈ پمس لگائے گئے ،تاکہ مقامی افراد کو صاف پانی میسر آسکے۔نہ صرف یہ بلکہ مختلف مقامات پر 770کنویں کھود کر مقامی آبادی کو پانی کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔مسلم ہینڈز کی جانب سے ملک کے مختلف مقامات پر عوامی لیٹرین تعمیر کئے گئے جن سے یقینا موذی بیماریوں کو شکست فاش دی جاسکے گی،مسلم ہینڈز کا سب سے بڑا کارنامہ ملک کے مختلف مقامات پر پانی کی بڑی ٹینکیاں نصب کی گئی ہیں جن سے ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر آرہاہے۔مسلم ہینڈ زکی جانب سے ملک بھر میں گزشتہ برس 190 صفائی ستھرائی بارے آگہی سیشنز منعقد کئے گئے جن سے کئی ہزار بچے بچیاں مستفید ہوئے۔