تحریر : میر افسر امان او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن) کے تحت١٥ رمضان المبارک کو دنیا بھر میں یتیموں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مغربی دنیا بھی معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے نام سے دن مناتے چلے آ رہے ہیں۔ پھر ان کا نام سن کر ان کی مدد اور ہمدردی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔یہ مغربی تہذب بھی عجیب شے ہے کہ دنوں پر بھروصہ کر کے ان کو کسی خاص طبقے سے منصوب کر کے ان کے دن مناتے ہیں۔ پھر اس دن لوگ اس خاص طبقے کی طرف متوجع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سال بھر اللہ اللہ خیر صلہ۔ ہر کوئی دنیوی بگیڑوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مخاطب ہے ۔ قرآن صرف کسی ایک دن کے لیے کسی خاص طبقے کو متوجع نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ کے لیے انسان کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اور کے لیے ڈھیروں اجر کی نوید بھی سناتا ہے۔قرآن کے فلسفے پر اگر معاشرے کی تربیت کی جائے توپھر مستقل بنیادوں پریتیموں،بیوائیوں،غریبوں اور معاشرے کے کمزرو طبقوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی ہیں۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے تحت کبھی ماں،باپ ،عورت، مزدور،زمین، ماحول اور نہ جانے کون سے دن منانے کی ریت ڈال دی گئی ہے۔ماں باپ کو ہی لیجئے ۔ مغربی معاشرے میں جب والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان کو اولڈ ایج کے اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
جہاں ان کو کھانے پینے صحت تفریع اورہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتیں ہیں مگر نہیں پہنچائی جاتی تو صرف روحانیت نہیں پہنچائی جاتی۔سال میں ایک دفعہ ان کے بچے کرس میس کے موقعہ پر ا ن کے پاس گلدستوں کے ہارلیکر آتے ہیں کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں پھر مم ڈیڈ کی گردان سنا کر واپس سال بھر معاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پھر سال بھراپنی اولاد کو اپنے سامنے دیکھنے کے لیے ان کے بوڑھے والدین کی آنکھوں میں آنسو سوکھ جاتے ہیںاور یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہتا ہے جب تک کہ ا ن بوڑھے والدین کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ صاحبو! ان مغربی تہذیب کے برعکس اسلامی تہذیب بوڑھے والدین سے بچوں کا سال بھر دور رہنا تو کجا ان کے سامنے اُف تک کرنے سے منع کرتی ہے۔ وہ ہر وقت بچوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ پورا اسلامی گھر ان بوڑھے والدین کی خدمت میں لگا ر ہتاہے۔ اسلام نے ماں کے پائوں کے نیچے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔باپ کی ہر بات میں اطاعت لازم قرار دی گئی ہے۔ رسولۖ اللہ کی لاتعداد حدیثیں ہیں جن میں والدین کے حقوق کی تلقین کی گئی ہے۔مگر آج کے بگڑے ہوئے مسلمانوں میں مغربی تہذیب سرایت کرتی جاتی ہے۔
ویلفیئر کے نام سے اپنے مغربی شیطانی ایجنڈے پر مغربی فنڈڈ این جی اورئز کی ایک پوری فصل پاکستان میں بو دی گئی ہے جو مسلمانوں کو بسکٹ کے نام پرمغرب کی نقالی کرنا سیکھاتی ہے۔ان میں ایک موم بتی مافیا بھی پیدا ہو گئی ہے۔ جن کو موم بتیاں جلاتے ہو ئے مسلمانوں میں صرف مذہب بیزار سیکولر طبقہ ہی نظر آتا ہے اگر کوئی اسلام پر عمل کرتا ہوا مسلمان اور اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائے تو اسے ریاستی دہشت گردی سے کہیں ختم کر دیاجاتا اور کہیں ان پرمظالم کے پہاڑتوڑے جاتے ہیں۔ نہ تو مرنے والوں پر یہ موم بتی مافیا ،موم بتی جلا کر یکجہتی کامظاہرہ کرتی ہیں اور نہ ہی ان کے مظالم پر انسانی حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ مغرب کا مسلمانوں سے تعصب ہے۔ کشمیر میں ہندو اور فلسطین میں یہودی ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، عراق،شام ،افغانستان اور برما کے مظلوم مسلمانوں کے مغربی فنڈد موم بتی مافیا خاموش ہے۔
بلکہ ان کو شدت پسند، انتہا پسند ،دقیانوس اور نہ جانے کون کون سے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اس موم بتی مافیا کے پیچھے یہودی جادوگر الیکٹرونک میڈیا ان کے معمولی سے کام کو پہاڑ جتنا کام دیکھاتا ہے اور نادان مسلمان اس پروپگنڈے میں پھنس جاتے ہیں۔ ہمارے کچھ لکھاری مغرب کی طرف سے منائے جانے والے ان ایام پر جائز تنقید کر کے مغربی تہذیب کی خرابیاںبیان کرنے کے بجائے نادانی میں ان کی تعریف میں لکھتے ہیں۔موم بتی مافیا والوں سے ہم کہنا چایتے ہیں کہ” اپنی ہی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو۔ سنگ مر مر پہ چلوگے تو پھسل جائو گے” صاحبو!قرآن انسان کو مکمل باصفت تقویٰ سے مزین انسان بناتا ہے وہ ایک دن نہیں پورا سال یتیموں، بیوائوں غریبوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی مدد کے لیے تیار کرتا ہے۔
مسلمان چائے عام شہری ہے، حکمران ہے یا کچھ بھی ہے اس پر اس کے منصب کے مطابق اسلام حقوق اور فرائض کی تنقید کرتا ہے۔ آج مغرب صلیبی چالوں کے تحت ویلفیئر کے نام سے این جی اوئز سے جاسوسی کا کام لے رہا ہے۔ وہ ہر طرح سے مسلمانوںکو زیر نگین رکھنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ،کہیں حقوق کے نام پر، کہیں مذہب اور فرقے کے نام پر ،کہیں زبان اورقومیت کے نام پر مسلمانوں کودست گریبان گیا ہواہے۔ ان حالات میں ان مغربی این جی اوئرز کے جعلی کام کا توڑ کرنے کے او آئی سی نے بھی ١٥ رمضان کو دنیا بھر میں یتیموں کا حقیقی عالمی دن منانے کی ریت ڈالی ہوئی ہے۔ ویسے تو اسلام مسلمانوں کے ہر گھر کو یتیموں کے لیے مختص کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس گھر کی تعریف کی گئی ہے جس گھر میں یتیم بچے پل رہے ہوں۔ اس کے ساتھ مسلمان گھرا نوں میں غریب رشتہ دار کے بچوں کو پالنے کی بھی رواج عام ہے۔
پھر بھی او آئی سی کی طرف سے اس فی سبیل اللہ کام کی تعریف کرنی چاہیے۔پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس لاکھ سے زائد یتیم بچے ہیں جن میں بڑی تعدادتعلیم و تربیت، صحت،خوراک اور دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اگر پاکستان کی بات کی جائے توان یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے پاکستان میں الخدمت فائوڈیشن، ایدھی،انجمن فیض الاسلام اور دوسری تنظیموں کام کر رہی ہیں۔ ان کا مغربی این جی اوئز کی طرح کوئی بھی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کام کر رہیں ہیں۔ مسلمانوں! حقوق اللہ تو اللہ معاف کر دے گا مگر حقوق العباد کی معافی نہیں ہے۔ لہٰذا اُٹھو اور اپنے اسلاف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خالص اللہ کی رضا کے لیے معاشرے کے یتیم بچوں کی کفالت کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔الخدمت سے متعلق حضرات نے ان دن کو منانے کے حوالے سے سینیٹ میں ایک قراداد بھی پاس کروائی ہے۔ پاکستان کی ساری این جی اوئز کو ایک پلیٹ فورم پر جمع کر کے ایک ”پاکستان آرفن کیئر فورم” بھی تشکیل دیا ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے اللہ ان کے مقاصد کو کامیاب کرے پاکستانی معاشرے کے کھاتے پیتے لوگوں ان ساتھ دینا چاہییے۔