تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا امت مسلمہ کی مائیں اور بہنیں ذرا غور کریں کہ ایک عورت نے ایک مرد مجاہد مرحوم ومغفور ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط کوپر تعیش زندگی کو ترک کرنے پر آمادہ کردیا، اور افریقہ کی صحرا او رچٹیل میدان، جنگلوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور وآمادہ کیا اور یہی نہیں بلکہ خود ان کے شانہ بشانہ ان کے عمل میں معاون ومدرگار رہیں۔ عورت کا یقیناً معاشرہ کی تبدیلی اور اس کی اصلاح میں اہم کردار ہوتاہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے شوہر، اپنے بھائی، اپنے بیتے کو صلاح الدین ایوبی، حسن بصری، امام بخاری، امام شافعی، امام ابوحنیفہ بناسکتی ہیں۔ مصلحین کی وہ جماعت کھڑی کرسکتی ہیں جن کی مثالیں ماضی میں بہت ملتی ہیں۔ لیکن کیا ہوگیا، اس امت کو۔ بہرحال شیخ نے افریقہ کی صحرا میں اپنی زندگی کے 29 برس گزارے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر 5700 مساجد تعمیر کیں، 9500 کنویں کھدوائے، 15000 بے سہارا یتیموں کی تعلیمی، معاشی کفالت کی، 840 اسلامی مکاتب، 204 اسلامی مراکز، 860 اسپتال اور ڈسپنسریاں اور 4بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں۔
شیخ نے ابتدا میں انفرادی طورپر اپنے ذاتی مال سے کام شروع کیا اور اپنی تمام دولت اور کمائی کو اسی مقصد کے لئے وقف کردیا۔ صدقات وزکوٰة کو مستحقین میں تقسیم کرنے کے صاف وشفاف نظام کے لئے انہوں نے ”افریقن مسلم کمیٹی” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کانام بعد میں ”ڈائرکٹ ایڈ” رکھا۔ اپنی ادارت میں ”الکوثر” میگزین کا اجرا کیا۔ بہر حال یہ ہے افریقہ کے صحرا میں روپوش ایک مرد مجاہد کی مختصر داستان ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیطنے ابتدائی سے سیکنڈری تک کی تعلیم کویت میں ہی حاصل کی،پھر بغداد یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور جولائی 1972 میں وہاں سے فراغت حاصل کی، اپریل 1974 میں انگلینڈ لیوریول یونیورسٹی سے ڈپلوما کیا،پھر جولائی 1974 میںباطنی امراض اورGastroenterology میں تخصص کیا۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدلندن میں مونٹرجنرل ہسپتال اورکنگزکالج ہسپتال میں طبی خدمات انجام دی پھر کویت لوٹ کر آئے تو صباح ہاسپیٹل میں Gastroenterology کے شعبہ میں بحال کیے گیے۔
اولو العزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں” انہی مردان میدان میں سے ایک مرد مجاہد مرحوم ومغفور شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط کویتی (15اکتوبر1947 مطابق 1366ھ۔15اگست 2013ء مطابق 8 شوال المکرم 1434ھ) کو کویت میں پیدا ہوئے ، جو کویت کے رہنے والے ایک مسلمان ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے کینیڈا، عراق اور یوروپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ محلات اور پرکشش ملازمتوں کو چھوڑ کر اسلامی رفاہی اور دعوتی کام سنبھالتے ہوئے اپنی ساری زندگی اس عظیم خدمت کو انجام دیتے ہوئے امت مسلمہ کے پسماندہ طبقہ کے علاج ومعالجہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں گزاردی۔ لیکن گمنام رہے، کسی نے آج سے قبل ان کو نہ جانا نہ پہچانا، کیوں کہ ان کے اندر خلوص کا وہ چراغ روشن تھا جس سے دل کی دنیاروشن ومنور تھی، ان کو دنیا کی شہرت نہیں چاہئے تھی، ان کا ہر عمل اللہ کے لئے تھا، اسی لئے تو کبھی کسی اخبار کی زینت بننا گوارا نہ کیا اگر وہ چاہتے تو میڈیا کاہجوم ان کے ارد گرد ہوتا۔
ان کے تعلق سے یہ معلومات بھی ان کے انتقال کے بعد افریقی اخبار، العربیہ ڈاٹ کام وغیرہ کے حوالہ سے حاصل کی گئیں۔العربیہ ڈاٹ کام نے لکھا ہے کہ افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے ویسے تو کئی قبائل ہیں لیکن (نام لئے بغیرانہوں نے کہا) کہ ایک قبیلہ ہے جس میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقر وفاقہ ہے اس قبیلہ پر عیسائی مشینریز نے 40 برسوں تک کام کیا اس کی خدمت کی اور 4ملین ڈالڑ سے زائد خطیر رقم خرچ کی۔ لیکن جب ہم وہاں گئے اور ہم نے انہیں دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا تو اس قبیلہ کے 98 فیصد لوگوں نے ہم سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا۔ شیخ عبدالرحمٰن مرحوم نے اپنی زوجہ محترمہ أم صہیب کے ساتھ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور رفاہی کام کا آغاز کیا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے۔
ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیطسیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے۔طبیعت میں سادگی ایسی تھی کہ شب وروز میں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کو آرام پسندی اور آسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کو ترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط جن دنوں آپ کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر کام کررہے تھے وہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ انہیں دنوں سابق امیر کویت شیخ جابرالصباح کی اہلیہ نے ڈاکٹر موصوف کو مکلف کیا کہ ان کے اخراجات پر کویت میں ایک مسجد بنوائیں،لیکن ڈاکٹر موصوف نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد افریقہ میں بنائی جائے،اسی ارادے سے 1980 میں اپنے دو کویتی احباب کے ساتھ ملاوی کا سفر کیا جہاں سب سے پہلی مسجد بنوائی۔ یہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں رفاہی خدمات انجام دینی شروع کردیں۔ ملاوی میں غیرمسلم مسلمانوں کو ‘الاسالی’کے نام سے پکارتے تھے جس کا مطلب ہوتا ہے ”پسماندہ انسان”۔ ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ مسلمانوںکی بری حالت اورتعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ تبدیلی کی کلید تعلیم ہی ہوسکتی ہے،میں نے مہنگی فیس دے کر ان کے بچوںکوپڑھاناشروع کیااوراب الحمدللہ وہاں تعلیم مفت ہوچکی ہے۔
اس مردمجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ”اے مسلمانو! تم کہا ں تھے،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین ب حیات تھے۔ یہ اسلام کا چمکتا ہوا آفتاب جو گمنام تھا اس دارہ فانی سے 15 اگست 2013 کو رخصت ہو گیا مگر انسانیت اور اسلام کی وہ خدمت کر گیا جو حقیقی مومن کا شیوا ہوا کرتا تھا۔ دعا ہے اللہ پاک ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط کے درجات بلند فرمائے اور ان کے نیک کاموں کا صلہ اپنی شان کے مطابق بڑھا چڑھا کرمرحوم و مغفور ڈاکٹر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط اور ان کے ساتھیوں کو اجر و ثواب عطا فرمائے آمین۔