اُس دن بھی میں حسب معمول آئے ہوئے ملاقاتیوں سے مل رہا تھا لوگ زیاد ہ تھے میں بار ی باری آنیوالوں کی ترتیب سے ان سے مل رہا تھا باقی لوگ آرام سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے میں جب بھی کسی سے مل کر دوسرے کو اشارہ کر تا تو ایک پچاس سالہ عورت جو پہلے بھی کبھی کبھار مُجھ سے ملنے کے لیے آتی تھی تیزی سے آگے بڑھ کر مُجھ تک آنے کی کو شش کر تی جب وہ دیکھتی میں نے کسی دوسرے کو اپنے پاس بلا لیا ہے تو و ہ بادل نخواستہ پیچھے ہٹ کر انتظار کر تی کہ جیسے ہی میرے سامنے والا بندہ اٹھے گا وہ پھر مُجھ تک آنے کی کوشش کر ے گی کیونکہ اُس سے پہلے بہت سارے لوگ آئے تھے اِس لیے میں کو شش کر رہا تھا سب کو اُن کی باری پر ملوں لیکن اُس کا بار بار میری طرف اُس کی شدید پریشانی کا مظہر تھا جب تین چار بار اُس نے میرے قریب آنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی دوسر ے کو بلا لیا تو اُس سے صبر نہ ہو سکا اب اُس کے انتظار کا پیمانہ اچھل پڑا تھا اب اُس نے اخلاقیات کی ساری حدود کو پامال کیا اور میری طرفِ تیزی سے آئی اور بولی پروفیسر صاحب مجھے پتہ ہے آپ لوگوں کو اُن کی بار ی پر ملتے ہیں لیکن میں بہت ایمرجنسی میں ہوں کسی کی زندگی موت کا مسئلہ ہے کوئی موت کی دہلیز پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔
اِس سے پہلے کہ وہ موت کے بے رحم اندھے غار میں اُتر جائے آپ پلیز میری مدد کریں عورت کا غم اضطراب بے چینی اُس کی آواز اور حرکات سے چھلک رہا تھا میں سمجھ گیا کہ وہ واقعی کسی سیریس مسئلے میں گرفتار ہے فوری طور پر اُس کی طرف متوجہ ہوا اور شائستہ شفیق لہجے میں بولا جی بہن جی بتا ئیں کیا ہوا میںآپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں تو اُس نے دور کھڑی کار کی طرف اشارہ کیا اور بولی میرا بھائی زندگی موت کی کشمکش میں پنڈولم کی طرح جھول رہا ہے وہ ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ہے ورنہ میںیہ گستاخی نہ کر تی آپ کو اُس مرض الموت کے مریض کو دیکھنے کے لیے اُس کار تک جاتا ہو گا اللہ تعالی آپ کو اِس کا رِ خیر کا اجر دے گا آپ خدا کے لیے میرے ساتھ اُس کار تک تشریف لے جائیں ساتھ ہی اُس نے ہاتھ جوڑ ے اب تو وہ بلک بلک کر رونا بھی شروع کر دیا تھا میں فورا اٹھااور تیزی سے اُس کے ساتھ کار کی طرف تیز قدموں سے چلنا شروع کر دیا وہاں جا کر اُس نے ڈرائیور سیٹ کھولی اورمجھے کہا ساتھ والی سیٹ پر مریض ہے آپ یہاں بیٹھ کر اُس کو دیکھ لیں میں کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر روایتی وضع داری سے ساتھ والی سیٹ کی طرف دیکھ کر بولا جناب فرمائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ابھی میرا فقرہ مکمل نہیں ہو اتھا کہ میری نظر کار کی سیٹ پر زندہ لاش ہڈیوں کے پنجر پر پڑی جس کی ناک میں خوراک کی نالی لگی تھی چہرے اور جسم پر زندگی کی سرخی کہ جگہ موت کی سیاہی رقص کر رہی تھی ڈوبی بے نور آنکھوں میں موت کے سائے قابض تھے۔
مریض بے بس مجبور لاچارہڈیوں کا ڈھانچہ بنا اگلی سیٹ پر پڑا تھا اُس کے زرد بے نور آنکھوں کی حرکت سے زندگی کا احساس ہو رہا تھا وہ کسی ہارر خوفناک فلم کا پراسرار کر دار لگ رہا تھا کمزوری نقاہت خون کی کمی کی وجہ سے اُس پر فالجی کیفیت طاری تھی وہ مرنے سے پہلے مر چکاتھا یا خدا کی گرفت میں تھا کہ موت نے بھی اُسے اپنی آغوش میں لینے سے انکار کر دیا تھااُس کی حالت زار جسمانی حالت اور اضطراب بتا رہا تھا کہ وہ موت مانگ رہا ہے لیکن موت بھی اُس سے ناراض لگ رہی تھی میں ایسے مریض کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھاتھوڑی دیر میں میرے بکھرے اعصاب نارمل ہو ئے تو میںبولا بتائیں جناب میں آپ کی کیا خدمت مدد کر سکتا ہوں تو بے حس و حرکت لاش میں حرکت ہوئی اُس نے لڑکھڑا تے ہاتھ اٹھا ئے اور جوڑ کر معافی کے انداز میں بولا مجھے معاف کر دیں تو میں سوالیہ نظروں سے اُس کی بہن کی طرف پچھلی سیٹ پر دیکھا جو اپنے بھائی کی حالت زار بیماری پر مسلسل رورہی تھی بولی پروفیسر صاحب یہ جب سے بیمار ہو ئے ہیں سب سے معافی مانگتے ہیں کہ مجھے معاف کر دو یہ مانتے ہیں کہ اِن سے کوئی ناقابل معافی گناہ ہو ئے ہیں اور یہ خدا کی گرفت میں ہیں دنیا جہاں کے ڈاکٹروں حکیموں بابوں سے لاکھوں روپے لگا کر علاج کروایا لیکن صحت ملنے کی بجائے بیماری بڑھتی جا رہی ہے ۔ اب میں نے بہن سے پوچھا اِن کو کیا بیماری ہے تو بولی اِن کی خوراک کی نالی بند ہو گئی ہے اب ناک سے خوراک کی نالی کے ذریعے خوراک معدے میں پہنچائی جاتی ہے لیکن پتہ نہیں کو نسی پراسرار بیماری ہے معدہ بھی کسی قسم کی خوراک قبول نہیں کر رہا خوراک معد ے میں جاتی ہے تو شدید درد شروع ہو جاتا ہے۔
مسلسل ڈاہریا ہو گیا ہے جو خوراک معدے میںجاتی ہے جب تک نکل نہیں جاتی آرام نہیں آتا شدید درد اٹھتے ہیں آپ دعا کر یں خوراک کی نالی کھل جائے اور ساتھ معدہ کام کر نا شروع کر دے مسلسل پیٹ کی خرابی اور معدے کے کام نہ کر نے سے جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ہے کمزوری نقاہت سے فالجی کیفیت کا شکار ہے بہن مرض کی شدت بتا رہی تھی تو مجھے یہی عورت یاد آئی جو پانچ سال پہلے اپنی جوان یتیم بیٹی کے ساتھ میرے پاس آئی تھی خوبصورت جوان بیٹی خود کشی کی کو شش کر چکی تھی یہ اُ س کو میرے پاس لائی تھی کہ یہ بار بار خود کشی کی کو شش کر تی ہے اِس کو دم کردیں خود کشی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ اِس بچی کا باپ فوت ہوا تو اِس لڑکی کی عمر پانچ سال تھی باپ فیکٹری کا مالک تھا باپ کے فوت ہو نے پر لڑکی کی ماں اپنے بھائی کے پاس آئی کہ میں اور میری بیٹی اکیلے ہیں مردانہ کام نہیں کر سکتی آپ فیکٹری اور سارا کاروبا رسنبھال لیں تو بھائی نے کہا بلکل میں تمہارا ساتھ دوں گا بھائی نے کام سنبھال لیا کروڑوں کی جائیداد تھی بھائی نے جب دیکھا ساری جائیداد کی وارث اکلوتی بیٹی ہے تو فوری طور پر بچپن میںہی بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کر دیا کہ جوان ہو نے پر اِن کی شادی کردیں گے۔
بہن بہت خوش کہ چلو ایک بیٹی ہے وہ ماموں کی طرف سکھی رہے گی گردش ایام کا سلسلہ حر کت میںرہا بیٹی بیٹا جوان ہو ئے تو لڑکے کا دل کسی دوسری لڑکی پر آگیا اِس سے پہلے بھائی ساری جائیداد فیکٹری اپنے بیٹے کے نام کر وا چکا تھا لڑکے کے پاس سب کچھ تھا اُس نے سارے خاندان کی مخالفت کر تے ہوئے اپنی پسند کی شادی کر لی جب بیٹے نے شادی کی تو ماموں اپنی بھانجی اور بہن کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ساری جائیداد ہڑپ کر لی اور بہن کو کرائے کے مکان پر شفٹ کر دیا چند ماہ کرایہ دیا پھر کرایہ بھی بند کر دیا بیٹی بچپن سے اپنے ماموں زاد سے پیار کر تی تھی جب اُس نے مرضی سے شادی کر لی تو دل برداشتہ ہو کر خود کشی کی کو شش کی اب ماں بیوٹی پارلر پر کام کر کے گزارہ کر رہی تھی پریشانی کے ان دنوں میرے پاس آئی اور ساری ظلم کی داستان سنائی میں نے ذکر اذکار دئیے لڑکی نے قسم کھائی کہ وہ ساری زندگی شادی نہیں کرے گی ماں کی خدمت میںزندگی گزار دے گی دو تین بار ماں بیٹی میرے پاس آئی اب پانچ سال بعد یہ میرے پاس آئی تھی خدا کی گرفت جب شروع ہو ئی لوٹ مار ظلم کا مال ہضم نہ ہوا یتیم کی آہ آسمان سے ٹکرائی تو خدا نے خوفناک سزا تجویز کی کہ اِس معدے اور خورا ک کی نالی کو حکم دیا کہ اب خوراک قبول نہ کیا جائے جب بیماری لاعلاج ہو ئی تو یہ بہن سے معافی مانگنے اُس کے گھر چلا گیا بہن کو پھر ترس آیا تو یہ اِس کو لے کرمیرے پاس آگئی کہ پروفیسر صاحب میں نے بھائی کو معاف کیا آپ بھی معاف کر دیں اِس کی صحت کی دعا کریں تو میں بولا آپ کی جائیداد واپس کر دے تو خدامعاف کر دے گا تو وہ بولی جائیداد تو اِس کا بیٹا عیاشی نشے میں اُجاڑ چکا ہے اُس کی بیوی بھی اُس کو چھوڑ گئی ہے تو میں نے گہری نظروں سے بیمار لاش کو دیکھا اور یہ سوچ کر باہر نکل آیاکہ یتیم کی آہ لگ چکی تھی اور شاید معافی کے سارے دروازے بھی اللہ نے بند کر دئیے تھے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org