اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے امریکی میڈیا کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا کسی کو علم نہیں تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی خبر جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
خبر دینے والے امریکی صحافی کو ناپسندیدہ قرار دے کر پاکستان سے نکالا گیا تھا۔ واضع رہے کہ نیویارک ٹائمز کے نمائندے CARLOTTA GALL نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے تحفظ کے لئے ڈیسک قائم کیا تھا۔ ڈیسک بنانے والا شخص کسی دوسرے کو جوابدہ نہ تھا۔
پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی بارے کسی کو علم نہیں تھا۔ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کوئی صدات ہے اور نہ ہی ان کے دعوے حقیقت پر مبنی ہیں، ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر بے بنیاد ہے۔
الزام کا مقصد پاکستان اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا ہے۔ واضع رہے کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا علم تھا۔ جنرل پاشا امریکیوں کے ساتھ مل کر طالبان کیخلاف سرگرم تھے۔ امریکی حکام آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کے طالبان کے معاملات میں ملوث ہونے پر حیران تھے۔
جبکہ سابق صدر پاکستان جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی طالبان کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ القاعدہ کے سربراہ کو بچانے کیلئے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی میں خفیہ ڈیسک قائم تھا جو پرویز مشرف نے قائم کر رکھا تھا۔ اسامہ بن لادن ڈیسک کا آفیسر کسی کو جوابدہ نہیں تھا۔ اخبار کہتا ہے کہ اسامہ بن لادن کا جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید سے براہ راست رابطہ تھا جو آئی ایس آئی کے قریب تھے۔
آئی ایس آئی میں کچھ سیل طالبان کی مدد کر رہے تھے لیکن آئی ایس آئی میں کچھ سیل ایسے تھے جو شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف کام کر رہے تھے۔ پاکستانی حکومت اور انٹیلی جنس دونوں مل کر شدت پسندون کے گروہوں کو کنٹرول کر رہے تھے۔
امریکا نے اس مسئلے کو اس لئے اجاگر نہیں کیا کیونکہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ تھے۔