کروڑ لعل عیسن ( نامہ نگار) 14 سالہ اسامہ دلشاد کو زمین کھا گئی یا آسمان ۔ 4 ماہ سے گمشدہ اسامہ دلشاد 10 دسمبر 2014 ء کو معمول کے مطابق حفظ قرآن کیلئے مدرسہ جامعہ حبیبیہ گیا اور شام کو واپس نہ آیا۔ جس پر اس کے والد دلشاد حسین اور گھر والوں کو فکر لاحق ہوئی جنہوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے ساتھ اس کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔
ورثاء نے بار ہا مدرسہ کے مہتمم سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کا بچہ دن 12 بجے یہاں سے چلا گیا تھا اور پھر واپس نہ آیا۔ دلشاد حسین کے مطابق وہ اسامہ کو صبح 7 بجے مدرسے چھوڑ کر آتا اور شام 7 بجے واپس لاتا لیکن اس روز اسے 6 بجے مدرسہ کے طالبعلم کا میسج آیا کہ آج اسامہ 12 بجے یہاں سے چلا گیا تھا اور پھر واپس نہ آیا۔ لیکن مہتمم مدرسہ نے کچھ بھی بتانا گوارہ نہ کیا۔ اس سلسلہ میں پولیس اور حساس اداروں نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہ کی۔
جس پر گزشتہ روز شہریوں کا نمائندہ اجتماع دلشاد حسین کے گھر منعقد ہوا جس میں ملک عمر علی اولکھ ، مبشر نعیم چوہدری ، طارق محمود پہاڑ ، پیر قمرالزمان قریشی ، شاہجہان خان ایڈووکیٹ ، صادق حسین جکھڑ ، صوبے دار بشیر احمد ، عبدالحمید کھیڑا ، حاجی محمد فاروق زرگر ، ریاض حسین ، عبدالقیوم ، مرزا خلیل الراحمن ، قاری امان اللہ ، قاری شفقت اللہ ، گل محبوب خان سمیت شہریوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر شہر میں ہونے والی وارداتوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اپنے بچوں کے مستقبل پر غور فکر کیا گیا
اور فیصلہ کیا گیا کہ اسامہ دلشاد کی گمشدگی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس پر قانون نافظ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہیئے اور مقدمہ درج کر کے اس کی کھلی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں 7 رکنی کمیٹی جن میں ملک عمر علی اولکھ ، مبشر نعیم چوہدری ، طارق محمود پہاڑ ، پیر قمرالزمان قریشی ، شاہجہان خان ایڈووکیٹ ، صادق حسین جکھڑ ، صوبے دار بشیر احمد شامل ہیں۔ جو کہ اسامہ دلشاد کے مقدمے کی پیروی کرے گی۔