افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان پر قابض طالبان نے مغربی ممالک کے ساتھ اپنے پہلے باقاعدہ مذاکراتی عمل کو افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری شورش کے خاتمے کے حوالے سے اہم قرار دیا ہے۔
طالبان نے یورپی سرزمین پر مغربی ممالک کے ساتھ اپنے پہلے باقاعدہ مذاکراتی سلسلے کو افغانستان میں ‘جنگ کے ماحول کی تبدیلی کے لیے مددگار‘ قرار دیا ہے۔ ہفتے کے روز طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس سے افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے ماحول میں تبدیلی میں مدد ملے گی۔
یہ سخت گیر جگنجو گروہ گزشتہ برس اگست میں کابل پر قبضے میں اس وقت کامیاب ہو گیا تھا، جب مغربی افواج کے افغانستان سے انخلا کا آخری مرحلہ جاری تھا۔ تب سے اب تک دنیا کے کسی ملک میں افغانستان پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
سن 1996 سے 2001 کے درمیان افغانستان پر طالبان کی حکومت پر اس دوران انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے الزامات لگتے رہے۔ سن 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”امارات اسلامی نے مغربی دنیا کے متعدد مطالبات کی تکمیل کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم سفارتی ذریعے سے تمام ممالک بہ شمول یورپی و مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائیں گے۔‘‘
مجاہد کا کہنا تھا، ”طالبان جنگ کے ماحول کو امن کی حالت سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ اتوار کے روز سے طالبان اور مغربی حکام کے درمیان ناورے کے دارالحکومت اوسلو میں مذاکرات ہو رہے ہیں، جن میں افغانستان میں انسانی حقوق اور ہیومینیٹیرین امداد کے علاوہ افغانستان میں تیزی سے بڑھتی غربت اور افلاس پر بات چیت ہو گی۔
طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں ہیومینیٹیرین صورتحال تیزی سے دگرگوں ہوئی ہے۔ اس قبضے کے بعد افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد بھی رک چکی ہے جب کہ امریکا نے افغانستان کے مرکزی بینک کے نو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے 23 ملین شہریوں کو، جو ملکی آبادی کا قریب 55 فیصد بنتے ہیں، بھوک کی صورت حال کا سامنا ہے جب کہ ان حالات میں افغانستان کے لیے ڈونر ممالک کو رواں برس نو ارب ڈالر کی امداد کی ضرورت ہو گی۔
ناورے کی وزارت خارجہ کے مطابق طالبان کے ساتھ اتوار سے منگل تک جاری رہنے والے مذاکرات میں برطانیہ، یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکا کے حکام بھی شریک ہوں گے۔