پاکستان بننے سے لیکر ابتک ہم تعلیمی نظام کو پورے ملک میں صیح طرح متعارف نہیں کروا سکے۔ یقینا جس میں کوئی ایک حکومت قصو وار نہیں۔ بلکہ ہر وفاقی حکومت میں تعلیم کا بجٹ ہی اتنا کم رکھا جاتا ہے کہ اس میں تعلیمی اخراجات کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے جس و جہ سے ہمارے بہت سے علاقوں میں تعلیم نام کی کوئی شے ہی نہیں۔
لیکن اگر صوبائی سطح پر نظر ثانی کی جائے تو شاید پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت پچھلے دس سال سے مختلف ادوار حکومت میں صوبائی گورنمنٹ کی طرف سے قابل ذکر اقدامات نظر آتے ہیں جن میں دانش سکول۔ بچوں کو کتابوں کی فراہمی جیسے پروجیکٹ قابل ذکر ہیں۔ اور اگست 2013 میں گورنمنٹ کے حکم پر اساتذہ کے گھر گھر ہو نے والے سروے بھی قابل ذکر ہیں۔ اس سروے میں گھر گھر جا کر اُن بچوں سکولوں میں داخل کیا گیا جنھوں نے کبھی سکول نہیں دیکھا تھا۔ یہ تمام اچھی حکومتی کوششیں ہیں لیکن ان تمام منصوبوں کے ساتھ ساتھ اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے ناخواند گی کو ختم کرنے کے لیے اور بہت سے منصوبے شروع کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں تو یکساں نظام تعلیم ہی نہیں۔ ایک مسلم معاشرے کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ کوئی کسی سے بد ترنیں۔ نہ کوئی غریب امیر سے اور نہ کوئی امیر غریب سے لیکن اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود ہمارا ہاں دوہر انظام تعلیم کیوں؟ اسی دوہرے تعلیمی نظام کی وجہ سے غریب اور امیر میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
اییلٹ کلاس اور مڈل کلاس میں دوریاں بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم سب اِس حقیقت سے باخوبی واقف ہیں کہ امیر کا بچہ ایلیٹ کلاس سکول میں پڑھتا ہے جہاں اس کی لاکھوں روپیہ سالانہ فیسیں ادا کر دی جاتی ہیں یہ ایلیٹ کلاس سکولز بچوں کو گھر جیسا ماحول فراہم کرتے ہیں بچے کو پلے گراونڈ کی سہولت بھی ملتی ہے سویمنگ پول کی سہولت بھی ملتی ہے میوزک کلاس بھی ملتی ہے کلاس رومز میں اے سی کی سہولت لازمی ہے۔
یقینا یہ تمام سہولیات ایک طالب علم کی ضرورت ہوتی ہیں لیکن اسی امیر شخص کے برعکس اس کے ڈرایور کا بچہ دیہات کے ایک سکول میں جاتا ہے جہاں بچے کے بیٹھنے کے لیے کرسی نہیں ہوتی بچوں کے کھیلنے کے لیے پلے گر اونڈ تو کیا بلکہ سکولوں کے صحونوں میں جانور بندھے ہوتے ہیں۔کلاس رومز میں اے سی تو کیا صیح حالت میں پنکھے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اور بعض اوقات تو بچوں کو بوڑدز کے پیپرز بھی بوجہ لوڈشیدنگ اِن بوسیدہ پنکھوں کے بغیر ہی پیسنے سے شرابور ہو کر دینے پڑتے ہیں۔
Pakistan Schools
اور اس کے ساتھ ساتھ حالات تو یہاں آ چکے ہیں کہ سرکاری سکولوں کی کچھ فی میل اساتذہ جن کی پوسٹنگ شہروں سے دور دیہاتوں میں ہوتی ہے ان کی تنخواہ ذیادہ نہیں تو 20 سے 25 ہزار سے معمول کی بات ہے۔ وہ اساتذہ سکول پرنسپل کے تعاون سے اپنی جگہ کسی مقامی لڑکی کو کچھ پیسوں کو عّوض استاد مقرر کر دیتی ہیں اور بقیہ تنخواہ سے گھر بیٹھے مزہّ لیتی ہیں۔
قارین ! جب ایک امیر اور غریب کے بچے کو پڑھائی کے ماملے میں اتنے بڑے فرق کا سامنا کرنا پڑے گا تو کیسے ہماری پوری نسل ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سے بات کر سکے گی۔ شاید تمام صوبائی حکومتیں یکمشت تمام سرکاری سکولوں کا نظام ایک ساتھ درست نہ کر سکیں لیکن موجودہ حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ پرائیوٹ سکولوں کی فیسیوں کی حد مقرر کریں۔ تا کہ ایک مزدور کا بچہ بھی کسی پرائیوٹ سکول میں پڑھ سکے۔ پرائیوٹ سکول کی حدیں اتنی تجاوز کر گئی ہیں کہ لاہور کے ایک پرائیوٹ سکول میں گریڈ 1 سے گریڈ 5 تک کی ماہانہ فیس 25000 تک کر دی گئی ہے ایک ٹاک شو میں سن کر میں حیران رہا گیا لیکن محکمہ تعلیم کے لوگوں کویہ بڑھتی ہوئی حدیں پتہ نیں کیوں نہیں نظر آ ر ہیں۔
یقینا ان اچھے پرائیوٹ اداروں میں بچوں کو پرایمری میں ہی وہ تعلیم دے دی جاتی ہے جو شاید گورنمنٹ یا گلی محلے کے سکولوں کے بچے میٹرک یا انٹر میں پڑھتے ہیں۔ میں کسی پرائیوٹ ادارے کے مخالف نہیں لیکن یہ تمام سہولیات پوری قوم کے بچوں کو ملنی چاہیں اور شاید بہت سی تعلیمی ngo,sبھی سلیبس ایک سا ہونے میں کوئی خاصی کوششیں نہیں کرتی۔
ْقارئین اب وقت کی ضرورت کے مطابق تمام صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر نظام تعلیم کو ایک کر نے کے لیے کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ امیر اور غریب کا فرق ختم کرنا ہو گا۔ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں کی حد مقرر کرنی ہو گی۔ ا یک مزدور کے بچے کو بھی وہ تمام تعلیمی سہولیات دینی ہو گی جو کہ ایک ایلیٹ کلاس کے بچے کو ملتی ہیں۔
سرکاری سکولوں میں دوسرے شہروں سے چھاپے مار ٹیمیں بھیج کر چیکنگ ہونی چاہیے اور گورنمنٹ آف پاکستان کو انٹر نیشنل لیول کے مطابق گریڈ 1 سے گریڈ 12 تک تعلیمی سلیبس ایک جیسا کرنا چائیے اور آخر میں پھر گزارش کرتا چلوں کہ یکساں تعلیمی نظام کے لیے اگر نصاب ایک جیسے ہو جائیں اور پرائیوٹ سکولوں کی فیسوں کی حد مقرر ہو جاے تو یقینا ہمارا نظام تعلیم ایک سا ہو سکتا ہے لیکن اس سب کے ساتھ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کو بھی تعلیم کو ایک کاروبار سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کرنا ہو گا۔
Abdu Rauf Chouhan
تحریر : عبد الروف چوھان email chouhan201259@yahoo.com