ہمارے سیاستدانوں کا کردار

Medina

Medina

ایک بار مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیا لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر فاقے کرنے لگے ایک روز بڑے میدان میں عوام الناس کو بہترین کھانا دینے کا اہتمام کیا گیا ایک شخص نے کھانا تقسیم کرنے والے منتظم سے دو افراد کے کھانے کا مطالبہ کیا۔ منتظم نے پو چھا سب اپنا اپنا کھانا لے رہے ہیں تم دو افراد کیلئے کیوں مانگ رہے ہو۔”ایک اپنے لئے اور ایک اس کیلئے جو باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہا ہے ”اس شخص نے دور بیٹھے بار ریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب جانتا تو نہیں لیکن اسے باسی روٹی پانی میں بھگو کر کھا تے دیکھ کر بڑا ترس آیا کہ سب اچھا کھانا کھا رہے ہیں وہ کیوں نہیں؟

Hazrat Abu Bakr Siddiq

Hazrat Abu Bakr Siddiq

وہ منتظم نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہمارے امیرالمومنین حضرت ابو بکر صدیق ہیں آپ سب لوگوں کیلئے کھانے کا اہتمام ان کی طرف سے ہی کیا گیا ہے وہ شخص یہ سن کر دنگ رہ گیا اسلامی تاریخ کا یہ درخشندہ واقعہ آج بھی ہمیں دنگ کر رہا ہے کہ دور حاضر میں پوری اسلامی دنیا میں ایسا ایک حکمران بھی نہیں جو کم ازکم ان جیسے کسی ایک اوصاف کا مالک بھی ہو عرب ممالک میں بیشتر میں تو بادشاہت ہے جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں رہا پاکستان تو اس ملک میں ایک سابق صدر اور دو وزراء اعظم پر کرپشن کے کیس چل رہے ہیں اس کے باوجود وہ اب بھی ہمارے قومی رہنما گردانے جاتے ہیں اس سے زیادہ ڈھٹائی کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے جب وہ کرپشن کیسز میں عدالتوں میں پیشی کیلئے جاتے ہیں تو زندہ باد۔

جیوے جیوے آوے ای آوے کے نعرے لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں شاید اس لئے کہ اس ملک میں آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے بحث و مباحثے میں کچھ لوگ جب اپنے اسلاف کی مثالیں دیتے ہیں تو جھٹ ان کو نظر انداز کر کے کہا جاتا ہے کہ چھوڑو یہ ماضی کے قصے ہیں آج کی بات کرو حالانکہ
خودی کو بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدابندے سے خود پوچھے تیری رضا کیا ہے کبھی کبھی دل اپنے ملک کی حالت، لوگوں کی حالت زار دیکھ کرملول ہو جاتا ہے جس ملک میں بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی پینے کو میسرنہ ہو۔۔ جہاں لوگ محض دووقت کی روٹی کیلئے روز مرتے روز جیتے ہوں جہاں کی عوام اپنے بنیادی حقوق کیلئے ترستی رہے جہاں تعلیم اور صحت منافع بخش کام بن جائے۔۔

جہاں غربت لوگوں کی بدنصیبی بن گئی ہو وہاں حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں اور اس بے چارے عام آدمی کی شنوائی کیونکر ہو جہاں انصاف بکتا ہے اور اس کے حصول کے لئے خجل خوار ہونا نصیب بن جائے حیف ہے ان حکمرانوں پر جو غیر ملکی دوروں پرجا کر بھی صرف اپنی بہتری کیلئے سوچیں اور عوام کی بہتری کیلئے کچھ نہ کریں اور غریب کو اپنی بیمار ماں کے علاج، بہن کی شادی یا اپنے بچوں کودو وقت کی روٹی کھلانے، یا پھر کوئی کام کاج کیلئے اپنے گردے بیچنے پڑیں یا اپنے لخت جگر فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے پر مجبور ہو جائے گھٹ گھٹ کر جینا مقدر بن جائے قسطوں میں موت نصیب بن جائے تو ان کے دل میں وطن کی محبت خاک ہو گی اور ہمارے حکمران ہیں کہ وہ عام آدمی کے بارے میں سو چنا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ ان کو یہ بات پیش نظرر کھنی چاہیے کہ اب دنیا کا منظر نامہ بدل رہا ہے۔ حالات یکسر چینج ہورہے ہیں۔حکمرانی کے انداز تبدیل ہو رہے ہیں اب عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف بنانا ممکن نہیں ہے۔ اب حکمرانوں کو عوام کو کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنا پڑے گا۔

کچھ نہ کچھ ریلیف دینا ہوگا کچھ نہ کچھ انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے مداری جیسا تماشہ دکھانے کے دن گئے اب تو لگتا ہے تماشہ دکھانے والے کہیں خود نہ تماشا بن جائیں کیا ہمارے حکمرانوں کا اقتدار رضاشاہ پہلوی سے زیادہ مضبوط ہے؟ کیا کرنل قذافی کے ساتھ جو کچھ ہوا کسی اور کے ساتھ نہیں ہو سکتا؟ کیا صدام حسین کا انجام یاد نہیں کیا حسنی مبارک بھی بھول گئے؟ کیا لیبیا تیونس، مراکش، عراق، ایران اور مصر میں پنپنے والی تحریکیں دنیا پر اثرات مرتب نہیں کر رہیں؟ بناوٹی باتیں، بلند بانگ دعوے کرنے اور زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے عوام کی حالت اور ان کے حالا ت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے اس کے لئے عملاً کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے جس روز عوام کو اپنی طاقت کااندازہ ہوگیا دریا جھوم اٹھیں گے غربت کو عوام کی بدنصیبی بنانے والوں کا حشر نشر ہو جائے گا اور عوام کو قسطوں میں مرنے سے نجات مل جائے گی۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی