یہ ایک مضبوط روائت بھی ہے اور قانون اس کی اجازت بھی دیتا ہے کہ عدالتی فیصلوں کے بعد عدلیہ کے سارے فیصلے عوام کی ملکیت بن جاتتے ہیں اور ان فیصلوں پر تنقید و تحسین عوام کا حق ہوتا ہے۔ اب جس طرح کا فیصلہ ہوگا اسی طرح کا عوامی ردِ عمل بھی سامنے آئے گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ عدلیہ کا فیصلہ غیر منصفانہ اور ذاتی انتقام کاشاخشانہ ہو لیکن عوام سے اس فیصلے پر پر دادو تحسین کے ڈھونگرے برسانے کی امیدیں وابستہ کر لی جائیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عدلیہ ہر مقدمے کے سارے پہلووں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد حتمی فیصلہ صادر کرتی ہے تا کہ اس کے فیصلوں میں کسی قسم کا کوئی جھول اور خلا نہ ہ رہ جائے۔
مشکل وہاں پیش آتی ہے جب مقدمات سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور جج پر ریاستی دبائو ہوتا ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کا مقدمہ اس کی بہترین مثال ہے جہاں پر جنرل ضیا الحق کے دبائو پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ مارشل لائوں کو جائز اور آئینی قرار دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایسے فیصلے ہمیشہ دبائو کے تحت ہوتے ہیں۔ آئین مارشل لا کوشب خون کہہ کر غیر آئینی قرار دیتا ہے لیکن پاکستان کا ہر مارشل لا عدالتوں سے جائز ٹھہرا جو صرف ریاستی دبائو سے ہی ممکن ہو سکتا تھا کیونکہ اتنا تو بہر حال ججز کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ فعل غیر آئینی ہوتا ہے اور اسے عام حالات میں آئینی بنایا نہیں جا سکتا۔
ایسے مقدمات کو آئین کی چھتری دیتے وقت عدالتوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہوں گی تبھی تو مارشل لائوں کو جائزقرار دینے کے لئے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا جاتا رہا تھا۔ ریاست کی بقا اور ملک میں سیاسی عدمِ استحکام ایسے عوامل ہوتے ہوں گے جن کی بنیاد پر عدلیہ اس طرح کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر تی رہی ہوگی لیکن یہ مسئلے کا کوئی حل نہیں ہوتا کیونکہ آئینی اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا کسی بھی پہلو سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے لئے دوسرے آپشن بھی استعمال کئے جا سکتے تھے۔
Politicians
لیکن انھیں نظر انداز کر کے مارشل لائوں کو جائز قرار دینے کی روش چل پڑی جس سے جمہوری نظام اپنی پٹری سے اتر گیا اور شب خون ایک روائت بنتا چلا گیا۔ اسطرح کی صورتِ حال کی ذمہ داری سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ گڈ گورنس سے عوام کے مسائل حل کر کے اس طرح کے شب خونوں کا تدارک نہ کر سکے۔ مارشل لائوں کے نفاذ میں سیاست دانوں کی کوتاہیوں اور اندازِ حکمرانی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا تھا جس سے غیر جمہوری قوتوں کو شہ ملتی تھی اور یوں جمہوری کلچر پر کاری وار ہوتا رہا جس سے صوبوں میں احساس ِمحرومی زور پکڑ گیا جو بالآخر پاکستان کی شکست و ریخت کا شکار ہوا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے صرف ٢٤ سالوں میں پاکستان کر دو دو لخت ہو گیا۔
مارشل لائوں سے محفوظ رہنے کے لئے ایک سیفٹی والو ٥٨ ٹو بی کی شکل میں آئین میں درج کیا گیا تھا جس سے حکومتوں کی تبدیلی تو ہوتی رہتی تھی لیکن مارشل لا کی نوبت کبھی نہ آتی تھے۔ جیسے ہی یہ سیفٹی والو ہٹا دیا گیا پاکستان میں مارشل لائوں نے اپنا راستہ بنا لیا۔ اب بھی یہ سیفٹی والو نہیں ہے اور خدشہ ہے کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کی کہانی ایک دفعہ پھر نہ دہرائی جائے کیونکہ اندازِ حکمرانی اور کرپشن کا کلچر اپنی انتہائوں پر ہے۔ جس ادارے کو ہاتھ لگائیں کرپشن کے بد بو دار بھبھکے اٹھتے ہیں جس نے عوام کا سانس لینا محال ہو گیاہے۔۔
پی پی پی کے بعد اب عمران خان کی تحریکِ انصاف آجکل عدلیہ کے نشانے پر ہے ۔عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اسے بلا کس و قامت پیش کر دیتے ہیں اور اس میں لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ اس سے ان کی ذات کبھی کبھی متنازعہ بھی بن جاتی ہے لیکن وہ اپنے اس انداز پر پہرے نہیں بٹھا سکتے کہ یہ ان کا فطری اندازِ بیان ہے جو ان کی ذات کا جزوِ لا ینفک ہے۔ ان کا یہی انداز ہے جس سے عوام محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، پی پی پی کے چیرمین آصف علی زرداری، جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان، اور مسلم لیگ (ن)کے میاں برادران کے بارے میں جو محسوس کیا اسے پوری دیانت داتی کے ساتھ عوامی عدالت میں پیش کر دیا۔
Election 2013
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن ٢٠١٣ میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اور اس کا اعتراف ساری سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، پاکستان تحریکِ انصاف ان انتخابات میں سب سے زیادہ متاثرہ جماعت ہے اسی لیئے وہ دھاندلی کے مسئلے کو ہر فورم پر بڑی ہی باقاعدگی سے اٹھا تی رہتی ہے۔ عمران خان نے اسی سلسلے میں ٢٦ جو لائی کو ایک پریس کانفرنس میں اس دھاندلی کا الزام الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے سر منڈھ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ کا کردار بڑا شرمناک ہے۔ بس پھر کیا تھا افتخار محمد چوہدری نے عمران خان کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔
عمران خان نے اس نوٹس پر عدالت سے معافی مانگنے اور اس کے سامنے سر بسجود ہونے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اعلان کر دیا کہ وہ جیل چلے جائیں گئے لیکن اپنے الفاظ سے پیچھے نہیں ہٹیں گئے۔ دھاندلی ہوئی ہے اور ان دنوں اداروں نے مل کر کی ہے۔ اگر میرا دعوی غلط ہے تو پھر سپریم کورٹ انگو ٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کرنے والی میری درخواست کو سننے سے کیوں خائف ہے؟انھیں ووٹوں کی تصدیق کا حکم کا حکم جاری کر کے دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی کر دینا چائیے۔۔
عمران خان کا مزاج بھی قدرے سخت ہے۔ اسے بھی جھکنے کی عادت نہیں ہے ۔اپنے موقف پر ڈٹ جانا اس کی پہچان رہی ہے لہذا سپریم کورٹ کے حالیہ توہینِ عدالت کے نوٹس نے عوام میں اضطرابی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔جہاں تک لفظ شرمناک کا تعلق ہے یہ نا پسندیدہ ضرور ہے لیکن یہ گالی نہیں ہے ،ہم روزمرہ میں اس لفظ کا اعام استعمال کرتے ہیں۔دوستوں میں یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔جب کوئی دوست دوسروں کی بات سننے سے انکار کر دیتا ہے تو پھر دوسرے دوست اسے شرم کرو کا طعنہ دیتے ہہیں تا کہ وہ بدل جائے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جس زمانے میں ہم والی بال کھیلا کرتے تھے اور ہماری کلب کی کارکردگی کمزور ہوتی تھی تو ہمارے ایک قابلِ احترام بزرگ محمد نواز بٹ مجھے مخاطب کر کے یہ آواز بلند کیا کرتے تھے (طارق بٹ شر م کرو اور اپنے اصلی کھیل کا مظا ہرہ کرو) ۔ہمارے قابلِ احترام بزرگ کا مقصد ہمیں گالی دینا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس طرح کے انداز سے وہ ہم میں جوش و جذبہ کو ابھارتے تھے تاکہ ہم شرم کا مظاہرہ کر کے اپنے کھیل میں بہتری کے امکانات پیدا کر لیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ یہ لفظ گالی ہر گز نہیں ہے۔صرف دیکنا یہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ کس سیا ق و سباق میں استعمال ہوا ہے اور اس کے استعمال کے پیچھے کون سے مقاصد پنہاں ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون سا شخص تھا جس نے چیف جسٹس آف پاکستان افتحار محمد چوہدری کو یہ مشورہ دیا ہے کہ شرم ناک کا لفظ گالی ہے اور عمران خان عدالت کو گالیاں دے رہاہے ۔لفظ شرمناک گالی نہیں ہے ۔یہ اپنے جذبات کے اظہار کا ایک تلخ انداز ہے لیکن تلخ انداز پر کیا توہینِ عدالت نوٹس دیا جا سکتا ہے موضو عِِ بحث بنا ہوا ہے۔ عدالت کے بارے میں تو یہ مشہور ہوتا ہے کہ وہ بڑے در گزر سے کام لیتی ہے اور غصے اور انتقام کو کسی بھی صورت میں خود پر طاری نہیں کرتی۔
اب اگر عدالت ہی غیر اہم باتوں پر اپنا صبرو تحمل کھو دے گی تو پھر عوام کے صبر کو سمجھنے میں چنداں دشواری نہیں ہو نی چائیے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ غالب نے بھی اس لفظ کا ستعمال کیا ہوا ہے اور بڑا ہی برملا کیا ہوا ہے لیکن اس کا ہدف خود اس کی اپنی ذات ہے۔ اس کی بڑی ہی مشہور و معروف غزل کے چند اشعار یہاں نقل کر رہا ہوں تا کے بات اور بھی واضح ہو جائے اور سارے شکوک و شبہات ختم ہو جائیں۔۔
پہلے ہر بات پر آتی تھی ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی کعبے کس منہ سے جائو گئے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی