تحریر : وقار انساء پاکستان ٹیم اس وقت بنگلہ دیش میں اپنا ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے – کھلاڑیوں کو بالاخر شرم آ ہی گئی کچھ ہلتے جلتے نظر آئے لیکن اس وقت ان کی کارکردگی ایسے ہی لگ رہی ہے کہ جیسے کوئی بہت بری دال بنا کر اس کو دیسی گھی کا بگھار لگا دے-لیکن اس کا ذائقہ اپنی جگہ برقرار ہی رہے گا اللہ کرے یہ ٹیسٹ میچ ہی جیت جائیں جس بری طرح تین ون ڈے کی سیریز میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے کلین سوئپ کردیا –اس نے شائقین کرکٹ کو دل فگار کر دیا اس کے بعد باری آئی ٹی ٹونٹی کی اور قومی ٹیم نے پھر سے ایک شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا اور یہ میچ بھی ہار گئی ٹیسٹ میچ کی کیا صورت نکلے گی اللہ بہتر جانے ان میچز کے بعد فیس بک پر دیکھا لکھا تھا کرکٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے حقیقت بھی ایسی ہی ہے –کہ اس کھیل کو بھی ہاکی کے بعد رو پیٹ لیا گیا ہے ورلڈ کپ سے آؤٹ ہونے کے بعد جب یہ پڑھنے کو ملے کہ تم جیتو يا ہارو ھمیں تم سے پیار ہے یہ فلسفہ سمجھ سے باہر ہے –کہ ہارنے پر کیوں ؟
ارے بھئی یہ لوگ چکنے گھڑے ہیں ان پر اثر نہیں ہوتا خدارا آپ لوگ تو اس پیار کے الاپ کو بند کریں لوگ اپنے وطن کی ٹیم ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں اچھا کھیل جس سے اپنے وطن کا نام ہو جو کھلاڑی یہ کام کرے لوگ اسے پسند کرتے ہیں – یہ کہنا عجب مضحکہ خیز لگتا ہے – جبھی تو ٹیم کے چیئرمین ہوں مینیجر ہوں کہ ہیڈ کوچ ان کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں!! بغیر کسی کارکردگی کے اس ٹیم سے شائقین کو کیسے پیار ہو سکتا ہے ؟بنگلہ دیش سے دھلائی کے بعدسب کی کارکردگی نکھر کر سامنے آگئی ہے –پھر بھی آپ لوگ یہ کہیں تو مطلب یہ کہ آپ کو اپنے وطن سے ہی پيار نہیں ورنہ اس شرمناک شکست کے بعد يہ جملہ نہ کہا جائے بنگلہ دیش سے اس برے طریقے سے پٹنے کے بعدرمیز راجہ نےاس ٹیم کے لئے بالکل ٹھیک کہا کہ پاکستان کی کرکٹ ہسٹری کا یہ لوئسٹ پوائنٹ ہے اور تمام قوم ان کی بات سے اتفاق کرتی ہے
ان کاکہنا بالکل درست ہے ایسا لگتا ہے کہ قومی ٹیم اب کہیں يو اے ای کی ٹیم اور افغانستان سے جیت کر خود کو بہترین ٹیم سمجھے گی ٹیم کے عہدوں پر وہ لوگ تعینات کر دئیے جاتے ہیں جن کا اپنا قومی کرکٹ میں خاص کردار نہیں – وہی مثال صادق آتی ہےکہ ھم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے وقار یونس جب سے ہیڈ کوچ بنے پاکستان نے پانچ سریز کھیلیں اور سب ميں ہار گیا کیونکہ نہ تو وہ اچھا کپتان رہا اور نہ ہی اچھا کوچ بن سکا- کوچ کا کام یہ جاننا ہوتا ہے کہ کس کھلاڑی سے کیا اور کس وقت کام لینا ہے اور کرکٹ کا یہ کھیل ذاتی پسند اور پرخاش کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہو گیا ہے ایک طرف سری لنکن پلیئر اتھورا سنگھے جب سسے بنگلہ دیش کا کوچ بنا اس نے اس ٹیم کو اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا –آج وہ ٹیم کسی بھی اچھی ٹیم کے مدمقابل کھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے ٹیم کی سلیکشن ھمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے –
Shehryar Khan
ھماری بدقسمتی کہ ھمیں شہر يار خان ہارون الرشید اور وقار یونس جیسے کرکٹ کے عہدے دار میسر ہیں اگر ھمیں اپنے کھیل کو پھر سے اٹھانا ہے تو اس کے لئے اچھی مینجمنٹ کا انتخاب کرنا ہو گا ون ڈے میچز ناقص حکمت عملی کی وجہ سے برے طریقے سے ہار دئیے گئے عمر اکمل احمد شہزادکو شامل ہی نہیں کیا گیا – اس کے بجائے فواد عالم اظہرعلی محمد حفیظ جیسی سست رو ٹیم کا انتخاب کیا گیا –حارث سہیل بھی جارہانہ بیٹنگ نہیں کر سکتا – سرفراز احمد کو نکال باہر کیآ گیا –اور محمد رضوان نے کیپنگ کی اور بیٹنگ کا خانہ پر نہ ہوسکا 37 سالہ سعید اجمل کو ٹیم کا حصہ بنانے سے پہلےباؤلنگ کو چیک نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے باؤلنگ ایکشن کو ٹھیک کرنے کے بعدکس طرح باؤلنگ کر رہے ہیں اس کوشش میں ان کی بال 48 سےنکل کر 15 ڈگری تک آگئی جس کے نتیجے میں وہ اتنی سلو ہوئی کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں ناکام رہی پہلے دو میچز میں محمد حفیط سے باؤلنگ ہی نہیں کروائی گئی
اظہر علی نے ابھی تک انیس ون ڈے کھیلے ہیں وقت کے ساتھ شائد وہ اچھا کپتان بن سکے لیکن موجودہ صورتحال میں نہ ہی اچھی فیلڈ سیٹ کر سکا نہ ہی دفاع کر سکا اور نہ ہی اٹیک کر سکا ٹی ٹونٹی میں شاہد آفریدی غلط فیصلے کی ںذر ہو گیا – جب ٹیم تین ان فٹ بالر کے ساتھ کھیلے گی تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا جیسا ھم سب نے دیکھا احمد شہزاد نے بھی کوئی معرکہ نہ مارا سترہ ڈاٹ بال کھیلے اور ٹیم کو سلو سٹارٹ دیا – غلط فیصلوں نے شکست سے دوچار کیا حفیظ سے اوپننگ کی بجائے پانچویں نمبر پر کھیلانا اورمحمد رضوان کومڈل آرڈرپر کھیلانے کی بجائے اوپننگ کروانا حقیقت ہے کہ اب سعید اجمل کا دوسرا تیسرا کام نہیں کرتا –سہیل تنویر اور عمر گل تینوں کا ٹیم میں ہونا ٹیم پر ایک بوجھ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں خير سے پاکستان ون ڈے میچز کی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر آگیا ہے
Inzamam ul Haq
اگر کرکٹ کے کھیل کو پھر سے اٹھانا ہے تو ہیڈ کوچ کو بدلنا ہو گا اور کیا ہی اچھا ہو کہ انظمام الحق کو بیٹنگ کوچ مقرر کر دیا جائے 1996 میں ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں ہارنے کے بعد تحقیق کے لئے کمشن بنایا گیاتھا جسٹس قیوم کی رپورٹ کے بعد سلیم ملک اور عطا الرحمن کو سٹہ بازی کے جرم میں تا عمر پابندی لگا دی گئی چھ کھلاڑیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا جن میں مشتاق احمد اور وقار یونس شامل تھے جب ایسے لوگ کرکٹ کے عہدوں پر ہوں گے تو پھر قوم کو ایسے ہی رزلٹ کے لئے تیار رہنا چاہیے