تحریر : پروفیسر رفعت مظہر عمرِ عزیز کے بہت سے ماہ وسال درس و تدریس کی نذر کرنے کے بعد ہمیں کالم نگاری کا شوق چرایا اور پھر ہوا یوں کہ ہم کالموں ہی کے ہو رہے۔ اب تو زندگی کالم لکھنے، پڑھنے کے گردگول گول گھومتی رہتی ہے۔ ویسے ہمیں کالم لکھنے سے زیادہ پڑھنے کاشوق ہے حالانکہ اِس ”قبیلے” کے لوگ تو اپنا لکھا بھی نہیں پڑھتے، کسی دوسرے کا لکھا کیا خاک پڑھیں گے۔ کچھ کالم ایسے کہ جنہیں پڑھ کر”کَکھ” پلے نہیں پڑتا لیکن کچھ ایسے بھی کہ جنہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہے۔
لکھاری قبیلے کے نَووارد ناصر محمود ملک کاپچھلے دنوں لکھا گیاکالم کچھ ایساہی تھا ۔یہ کالم دراصل محترم وجاہت مسعودکا خاکہ تھاجو ایسا چٹ پٹا کہ یقیناََ وجاہت صاحب نے بھی ”چَسکے” لے لے کرپڑھا ہوگا۔ ناصرملک کاہر جملہ شائستہ وشُستہ۔ بھاری بھرکم الفاظ کاایسا استعمال کہ سلاست وروانی میںکہیں رکاوٹ نہیں۔ ہرجملے میںپہلوداری کاایسا عمدہ استعمال کہ پڑھنے والا”بحرِمزاح” میںبہتا چلاجائے ۔ہم توجس ناصر ملک کوجانتے ہیںوہ تو ہمیشہ سنجیدگی کی ”بُکل” مارے رہتاہے مگریہ” چھپارستم” پتہ نہیںکون ہے ؟۔اِس ”مولوی ٹائپ”ناصرملک کی حسِ مزاح اتنی تواناکہ الحفیظ والاماں۔ ہوسکتا ہے یہ گلِ نوخیزاختر کی صحبت کااثر ہوکہ
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر ، باز با باز
ناصرملک کے اندربیٹھے ”شریربچے” نے وجاہت مسعود کے”لَتّے لینے ”میں کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن اندازایسا کہ کہیں طنزکے نشترنہیں ۔ویسے اُس نے جو کچھ لکھا ،اُس سے ہمیںبھی کُلّی اتفاق کہ ہم نے جب بھی وجاہت مسعودکے کالموںکو پڑھنے کا”حوصلہ” کیااپنے پاس پانی کاگلاس اورسَردرد کی گولیاں رکھ کرہی کیا پھربھی لاکھ ٹامک ٹوئیاںمارنے کے باوجود ”کَکھ” پلّے نہ پڑا۔ مشکل پسندی تووجاہت مسعود کے چہرے ہی سے ٹپکتی ہے ۔ اسی لیے ہمیںاُن کی علمی ”وجاہت” کا اُسی طرح اقرارجس طرح مرزا غالب کی شاعری کے پہلے دَور (جسے مشکل پسندی کادَور کہاجاتا ہے)کے مشاعروںمیںاُنہیںبے تحاشہ داد ملتی۔
وجہ اُس دادکی یہ کہ مرزاصاحب کے اشعار اہلِ محفل کے سَروں سے کئی سو گز اوپرسے گزر جاتے لیکن اپنی کم علمی اورکَج فہمی کو ایک دوسرے سے چھپانے کی خاطروہ بڑھ چڑھ کر دادوتحسین کے ڈونگرے برساتے رہتے۔ آپس کی بات ہے کہ بھائی وجاہت مسعودکے کالم ”پلّے” ہمارے بھی نہیںپڑتے اورنہ آئندہ پڑنے کی توقع کیونکہ ہم نے تواُن کے کالموںکا ایک ایک جملہ الگ کرکے بھی تفہیم کی کوشش کی پھربھی ”پلّے” کچھ نہ پڑا۔اُدھر ہم ٹھہرے اردوادب کے اُستاد، اِس لیے اپنی ”اُستادی” کا بھرم رکھنے کے لیے ہم ”شرموکشرمی”داددیتے رہتے ہیں۔ ایک دِن ہم نے اپنے میاں (پروفیسر مظہر صاحب)سے وجاہت مسعود کے کالموںکے بارے میںپوچھا تو اُنہوں نے تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے جس کے بعد ہمارے لیے اوربھی ضروری ہو گیا کہ ہم بھی داد دیتے رہیں کیونکہ یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے میاںکے سامنے اپنی کج فہمی کااقرار کرلیں۔
Columnist
ویسے آخری خبریں آنے تک یہ تصدیق نہیںہو سکی کہ ہمارے میاںکے پلّے بھی کچھ پڑتاہے یا وہ بس”ایویںای” ہم پر” رعب شُعب”جماتے رہتے ہیں۔ایک اوربات جو خالصتاََہمارے ارسطوانہ ذہن کی پیداوارہے ،یہ کہ پرائیڈآف پرفارمنس کا فیصلہ کرنے والی ”کمیٹی” کے پلّے بھی یقیناََ ”کَکھ” نہیںپڑا ہوگا اسی لیے اُس نے بھی اپنی علمیت کابھرم رکھنے کے لیے بھائی وجاہت مسعود کو پرائیڈآف پرفارمنس کا حقدار ٹھہرادیا حالانکہ اِس کے اصل حقدار تو ”ہم” خود تھے یاپھر گلِ نوخیزاختر جسے عرصۂ درازتک توہم ”محترم ” کی بجائے ”محترمہ” ہی سمجھتے رہے۔
یہ عقدہ توبہت بعدمیں واہوا کہ وہ تو ”صنفِ نازک ” کی بجائے ”صنفِ کرخت” سے تعلق رکھنے والاایسا شخص ہے جومزاحیہ کالم نگاری میںتیزی سے ارتقائی منازل طے کرتا جارہا ہے ۔اُسے جُگت بازی میںملکہ حاصل ہے۔جہاں قہقہے پورامحلہ سُن رہاہو ،سمجھ لیجئے وہاں ”جانِ محفل” گلِ نوخیزاختر موجودہے۔یہ توہو ہی نہیںسکتا کہ نوخیز موجودہو اورمحفل زعفران زارنہ ہو۔پروفیسرصاحب سے اُس کا ”اِٹ کھڑکا” چلتاہی رہتاہے۔یوںتو وہ اپنے آپ کو”وارُستہ طبع ” ثابت کرنے کی بھرپور سعی کرتاہے لیکن ہے اندرسے ”پَکّامولوی”۔ اسی لیے مظہر صاحب نوخیزکے بارے میں اکثر کہتے ہیںکہ”قلبِ اُو مومن ،دماغش کافراست”۔مظہرصاحب اورگلِ نوخیزاختر کی ”چشمک”کی وجہ یہ کہ مظہرصاحب ٹھہرے پَکّے رجعت پسنداور نوخیزاُن سے ہمیشہ ”پُٹھے پُٹھے” سوال کرتا ہے۔ شایدوہ گھرسے یہ ارادہ باند ھ کے نکلتاہے کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہمکلام کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
اُس کی انہی ”حرکات” کی وجہ سے مظہرصاحب کاپارہ آسمانوںکو چھونے لگتاہے ۔وہ ڈرائینگ روم میںبیٹھے چیختے بلکہ چنگھاڑتے رہتے ہیں اورہم لاؤنج میںبیٹھے اُن کی دھاڑ ، چنگھاڑبلکہ للکارسے لطف اندوزہوتے ہیں۔شروع شروع میں توہم ڈرجاتے تھے کہ کہیںیہ ”اِٹ کھڑکا”تصادم میںنہ ڈھل جائے اورہمارا ڈرائینگ روم بھی ”پارلیمنٹ” کاسامنظر پیش نہ کرنے لگے لیکن اب ہمیں بھی ادراک ہوگیا کہ یہ سب ”پھوکی بڑھکیں” ہیں۔گلِ نوخیزاکثر ہمارے ہاتھ کے پکے کھانوںکی تعریف کرتا ہے۔
ہم تو اُس کی تعریفوںپر پھول کر”کُپّا” ہوجاتے ہیں لیکن مظہرصاحب کے خیال میں وہ صرف ”مکھن”ہی لگارہا ہوتاہے ۔اُس نوجوان کی ایک لائقِ تحسین خوبی یہ کہ اُس کاماضی کھلی کتاب ہے، ایسی کتاب کہ جسے وہ خودہی پڑھ پڑھ کرلوگوںکو سناتا رہتاہے ۔ بعض اوقات تو وہ اپناماضی اتنے دردناک پیرائے میںبیان کرتاہے کہ جھوٹ کاگماں ہونے لگے ۔پچھلے دنوں PFUC کی سالانہ ورکشاپ میںاُس نے یہی ”آزمودہ گُر” آزمایا اورساری محفل کی ہمدردیاںسمیٹ کریہ جا، وہ جا۔