تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پیپلز پارٹی کا پچھلا دَورِ حکومت بَدترین ،”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” زباں زدِعام، رشوت سفارش اپنے عروج پراور انتظامی معاملات ایسے کہ ”نے ہاتھ باگ پرہے نہ پا ہے رکاب میں” لیکن جب وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈارصاحب نے تیسرابجٹ پیش کیاتوایک پرانا ، مقبول گانا میرے ذہن میں گھومنے لگا جس کے بول کچھ یوں تھے کہ ُ ُاپنوں نے غم دیئے تو مجھے یاد آ گیا اِک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہوںمیں لَگ بھگ150 فیصداضافہ ہوالیکن نوازلیگ کی حکومت کے پہلے بجٹ پریہ بہانہ کہ معیشت برباد ،خزانہ خالی ،پیپلزپارٹی نے عوام کے لیے ”کَکھ” نہیںچھوڑا ۔دوسرے بجٹ پربھی لفظی ہیراپھیری کے ساتھ یہی بہانہ لیکن تیسرے بجٹ پرکیا ہوا؟۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپر یہ خبریںتو متواتر آرہی تھیں کہ تنخواہوںاور پنشن میںپانچ سے سات فیصدتک اضافہ کیاجا رہاہے
لیکن ہم نے اِن پر یقین نہیںکیاکہ اِس شدیدترین مہنگائی میںبھلا یہ کیسے ممکن ہے لیکن جب بجٹ آیاتو اسحاق ڈارصاحب نے ہماری توقعات کے برعکس گورنمنٹ ملازمین اورپینشنرز کے گلے پرچھُری پھیردی اُنہوںنے سرکاری ملازمین کے ساتھ انتہائی بھونڈامذاق کرتے ہوئے تنخواہوںاور پنشنزمیںساڑھے سات فیصداضافہ کرکے گویااُن کے مُنہ میں”پولیوکے قطرے” ٹپکادیئے۔کبھی ہمارے ایک وزیرِخزانہ سَرتاج عزیزہوا کرتے تھے جنہیںلوگ ”سَرچارج عزیز” کہاکرتے تھے۔ جب اُن سے وزارتِ خزانہ کاقلمدان واپس لیاگیاتو ”بہتوں” نے سُکھ کاسانس لیالیکن اب لوگ کہتے ہیںکہ سَرتاج عزیزنے توآتی جاتی سانسوںکا راستہ کھُلارکھا لیکن ہمارے ”ڈالرصاحب” نے تویہ راستہ بھی بندکرنے کی سعی کرڈالی۔
ماناکہ حکمران صبح ومسا ملکی ترقی کے لیے کوشاں، موٹروے بجا ،میٹرو زبردست اورگرین لائن منصوبہ بھی مفیدمگر اِن سبھی سے لطف اندوزتو تبھی ہواجا سکتاہے جب سانس کی ڈورسلامت رہے۔ ہم نے پہلے بھی لکھاتھا کہ یہ اضافہ بھی اُن ”غریب پارلیمنٹیرینز” میںتقسیم کردیں جن کی تنخواہوںکو تازہ تازہ دوگنا کیاگیا ہے اور”بینظیرانکم سپورٹ فنڈ” کے اصلی حقداریہی بے کس ،بے بَس اورمجبورو مقہور پارلیمنٹیرینز ہی ہیںجن کی فیملیزکے لیے پارلیمنٹ لاجزمیں36 کروڑروپے کے فیملی سوٹس تعمیرکیے جارہے ہیں۔ حکومت ”ایویںخوامخوا” مفلسوںکو ڈھونڈتی پھرتی ہے ،سارے مفلس توپارلیمنٹ میںبیٹھے ہیں۔گورنمنٹ ملازمین کی تمام ایسوسی ایشنزنے اونٹ کے مُنہ میںزیرے کے مترادف اِس اضافے کویکسر مستردکر دیا۔
Tax
ہم نے اِس ظالمانہ بجٹ پراپنے میاںسے بات کرناچاہی تواُنہوںنے اُداس نظروںسے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”ظالمانہ ہی توہے ۔سگریٹ پہلے ہی مہنگے تھے ،ظالموںنے مزیدمہنگے کردیئے”۔ میاںکی یہ بات سُن کر ہمارا جی اپنا سَر پیٹ لینے کوچاہا لیکن پھر یہ سوچ کر چُپ ہورہے کہ اُن کا مہنگائی ماپنے کاپیمانہ توہمیشہ صرف سگریٹ ہی ہوتے ہیں،سگریٹ مہنگے توبجٹ بکواس ،سستے تو واہ وا۔ تنخواہ دارطبقہ ایک طرف ،اِس بجٹ میںتو خطِ غربت کے نیچے زندگی بسرکرنے والوںکے لیے بھی ”کَکھ” نہیں۔ ہم ماہرِمعاشیات ہیںنہ معیشت کی سُدھ بُدھ لیکن وزیرِخزانہ کی بجٹ تقریرسُن کراتنا اندازہ ہم نے بھی لگالیاکہ یہ بجٹ محض خوبصورت الفاظ کا ایسا گورکھ دھندہ ہے
جس میںاشرافیہ کو کچھ ملے توملے ،مجبوروں مقہوروںکوکچھ نہیںملنے والا۔ہمارے حکمران کیاجانیںکہ ایک غریب کی معیشت پیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پرہی ختم ہوجاتی ہے ۔سچ لکھاہے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کِس لیے وہ سُن کے بولا بابا خُدا تُم کو خیر دے ہم تو نہ چاند سورج نہ تارے ہیں جانتے بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
اسحاق ڈارصاحب کہتے ہیںکہ افراطِ زَرمیں کمی ہوئی ۔اوّل تویہ کمی صرف کاغذوںمیں نظرآتی ہے لیکن اگر ہوئی بھی توڈارصاحب کی پالیسیوںکی بدولت نہیںبلکہ عالمی منڈی میںتیل کی قیمت کم ہوجانے کی وجہ سے ہوئی اوردوسرے اگرواقعی افراطِ زَرمیں کمی ہوئی تواِس کااثر خورونوش کی بنیادی اشیاء پرہرگز دیکھنے میںنہیں آیا ۔جولائی 2014ء سے اب تک روزمرہ ضرورت کی اشیاء میں25 سے 150 فیصدتک اضافہ ہوا جبکہ ڈارصاحب کی ”معیشت” میںیہ اضافہ بقدرِاشکِ بُلبُل ہے۔
Pakistan Inflation
مارکیٹ میںہرشے کی قیمت آسمان سے باتیںکر رہی ہے، سبزیوںکی قیمتیں سُن کرپسینے چھوٹ جاتے ہیںاور فروٹ خریدنے کی توکسی عام آدمی میںسَکت ہی نہیں۔اب تولوگوںنے پھلوںکی قیمتیں پوچھنابھی بندکر دی ہیں ۔جس ملک میںدال ماش 180 ، دال مونگ 170 اورمسورکی دال 142 روپے فی کلومِل رہی ہو، اُس کے وزیرِخزانہ کایہ بیان کسی لطیفے سے کم نہیںکہ افراطِ زَرمیں کمی ہوئی ہے ۔دراصل جب مرسڈیزاور بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے مالک ”ٹھنڈے ٹھار”بنگلوںمیں بیٹھ کربجٹ بنائیںگے توپھربھلاوہ فُٹ پاتھ پہ سونے والوںکے دردآشنا کیسے ہوسکتے ہیں۔ جس نے غُربت دیکھی نہیں، جومُنہ میںسونے کاچمچہ لے کرپیدا ہو ا، وہ بھلاغریبوں کادُکھ کیاجانے۔
پھرتو ایساہی بجٹ بنے گاجیسا ڈارصاحب نے بنایا۔ حضرت عمر نے فرمایا”امیرالمومنین اُس وقت تک گیہوںکی روٹی نہیںکھا سکتاجب تک اُسے یقین نہ ہوجائے کہ اُس کی رعایامیں سے ہرایک کوگیہوںکی روٹی میسرہے ”۔ اسحاق ڈارصاحب نے بجٹ تقریرکرتے ہوئے بڑے فخرسے کہاکہ کم از کم تنخواہ اورپنشن 12 ہزارسے بڑھاکر 13 ہزارکی جارہی ہے۔ دست بستہ عرض ہے کہ اِس 13 ہزارمیں توشاید ڈارصاحب اپنے صرف ایک دِن کے اخراجات بھی پورے نہ کرسکتے ہوںپھر بھلا 13 ہزارمیں ایک ماہ کاخرچہ کیسے پوراکیا جاسکتا ہے؟۔
ڈارصاحب بہت بڑے ماہرِمعاشیات ہیںاور اُن کی صلاحیتوںکے سبھی معترف، وہ چھوڑیں اِس بجٹ وَجٹ کوبَس اتنا کردیںکہ 13 ہزارروپے ماہانہ کابجٹ بناکے دکھادیں ۔ اگروہ ایساکر گئے تو پھرہم بھی اُن کی صلاحیتوںکے معترف ہوجائیں گے اوراگر نہیںتوپھر ابنِ مریم ہوا کرے کوئی میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی