اپنے ہی گناہوں کا اثر

Allah

Allah

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا ، تاکہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے، بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم : ١٤)اس آیت کریمہ میں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن وسکون تہہ وبالا ہوجائے ، ان کی زندگیوں میں تنگی، بے برکتی، اضطراب وبے چینی اور ظلم و زیادتی عام ہو جائے۔

جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیتا ہے ،تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال وکردار کا رخ برائیوں کی طرف پھرجاتا ہے ، جس کی وجہ سے زمین فساد سے بھر جاتی ہے، امن وسکون ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ خوف و دہشت اور قتل و غار ت گری کا بازارگرم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض اوقات آفات ارض و سماء بھی سزا کے طور پرنازل ہو تی ہیں جیسے قحط ،طاعون، طوفان، زلزلہ اور سیلاب وغیرہ۔ مقصد اس سے یہی ہو تا ہے کہ لوگ گناہوں سے باز آجائیں ،توبہ کرلیں، اور ان کا رخ اللہ کی طرف ہو جائے۔ گناہوں اور نا فرمانیوں کے برے نتائج انسانی زندگی پر مرتب ہو تے ہیں ، بلکہ پیڑ ، پودے اور جانور بھی اس سے متاثر ہو تے ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بدکار آدمی کی موت سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور، شہر، علاقے،اور پیڑ پودے تک سکون پاتے ہیں۔یہاں مختصر طور پر بعض ان نتائج و آثار کا ذکر کیا جارہا ہے جو افراد و معاشرہ پر گناہوں کے سبب پڑتے ہیں۔جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو سب سے پہلے انسان کے دل پر مختلف انداز میں گناہوں کا اثر ہو تا ہے ،جن میں اہم یہ ہے کہ دل سے اللہ کی عظمت و محبت رخصت ہو جاتی ہے ، شرم وحیاء کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

حق وباطل کی تمیز مٹ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو اور ٹیڑھا کر دیا۔( الصف : ٥)گنہگار کے دل سے ایمان کی روشنی ختم ہو جاتی اور وہ وحشت وظلمت کاشکار ہو جاتا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے : اور جس کو اللہ بے راہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔( ال?نعام :٥٢١)اسی طرح مرتکب گناہ کا دل علم شرعی کی روشنی سے بھی محروم ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ اس علم کی شرط ہی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے ،ارشاد ربانی ہے :اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھائے گا۔(البقرہ : ٢٨٢)گناہوں کا اثر اس کے ارتکاب کرنے والے کے جسم ، جان اور عمل پر مرتب ہو تا ہے ، چنانچہ ایسے شخص کو دنیا میں شرعی سزا ئیں دی جائیں گی۔

مومن کے ساتھ اللہ کا خاص معاملہ یہ ہے کہ اس کو جو سزا ملتی ہے یا مصیبت کا شکار ہو تا ہے یا بیماری لاحق ہو تی ہے تو گرچہ گناہوں کا نتیجہ ہے، لیکن اس کے گناہ معاف ہو تے ہیں ،حتیٰ کہ اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بھی اس کی برائیوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔(بخاری)گنہگار شخص کے اعضاء وجوارح بھی موت کے وقت اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور اسے کلمہ شہادت کی توفیق نہیں ملتی جو کہ جنت میں داخلے کی ضمانت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس کی آخری بات ”لا الہ الا اللہ ”ہو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔اور گناہوں میں مبتلا شخص اگر نشہ آور اشیاء کا عادی ہو گیا ہو تو اس کی عقل بھی جاتی رہتی ہے اور خود ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔یہ گناہوں کے وہ اثرات ہیں جوافراد پر پڑتے ہیں۔

 Crimes

Crimes

اگر ہم اللہ کی نافرمانیوں اور مصیبتوں کا معاشرہ پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں پچھلی قوموں کی تباہی و بربادی کا باعث کفر و شرک اور معصیت و سرکشی ہی ہے، جیسا کہ قرآن نے بڑی تفصیل کے ساتھ انبیاء اور ان کی امتوں کے قصوں کے ذریعہ اسے واضح کر دیا ہے؛ چنانچہ قوم نوح ،عاد و ثمود، قوم فرعون، قوم شعیب ، قوم لوط و غیرہ اپنی خدادشمنی اور معاشرتی ،اقتصادی اور اخلاقی جرائم کی پاداش میں ہی ہلاک کی گئیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مفہوم: ہم نے تو ہر ایک کو اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا،ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا، اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا،اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسایا، اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا ، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے ، بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر تے تھے۔( العنکبوت : ٠٤)جس اللہ نے پچھلی قوموں کو ان کے گناہوں کی سزا دی ،وہی قادر مطلق اس چیز پر قدرت رکھتا ہے کہ بعد میں آنے والی قوموں کو بھی ان کے کرتوتوں کا مزا چکھائے ، اللہ نے فرمایا۔ مفہوم: کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہیں کیا ،پر تم ان کے بعد پچھلوں کو لائے ،ہم گنہگاروں کے ساتھ اسی طرح کر تے ہیں)۔(المرسلات : ٦١ ٨١)لہٰذا آج جو ہم دنیا میں پھیلی تباہ کاریوں او رہولنا کیوں کے مناظر دیکھ رہے ہیں کہ خوفناک جنگیں ہزاروں لوگوں کو نگل لیتی ہیں، لاکھوں لوگوں کو بے گھر،یتیم اور بیوہ بنادیتی ہیں ، ایسے ایسے مہلک اور تباہ کن اسلحے استعمال ہو رہے ہیں جو آنا فانا بستیاں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں، کثرت سے گاڑیوں، ٹرینوں اورہوائی جہازوں کے حادثات ہورہے۔

یہ سب کچھ موجودہ قوموں پر اللہ کی نافرمانیوں کا وبال ہے ، جس میں ہمارے لئے درس عبرت ہے۔آج کل لا علاج امراض جیسے ایڈز وغیرہ کا وسیع پیمانہ پر پھیلنا بھی اللہ کی مار ہے، جو فحاشی وبد کاری کی کثرت کی وجہ سے موجودہ قوموں پر مسلط کی گئی ہے۔ اسی طرح خشک سالی ،سیلاب ،زلزلے ،طاعون کا تسلط بھی اللہ کا عذاب ہے۔

کافروں اور ظالموں کامسلمانوں پر غلبہ بھی احکام شریعت سے رو گردانی اور اللہ کے راستہ میں نہ لگنے کا صلہ اور نتیجہ ہے۔خاص طور پر وہ گناہ زیادہ اللہ کے غیظ وغضب کو دعوت دینے والے ہو تے ہیں جوا علانیہ کئے جاتے ہیں ،اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ معاشرے اس کا بری طرح شکار ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متفق علیہ حدیث ہے: مفہوم ہے کہ ” میری امت بخش دی جائے گی سوائے ان لوگوں کے جو کھلم کھلا گناہ کر تے ہیں۔اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ لوگ اس کو برانہ سمجھیں اور کوئی اس پر نکیر نہ کرے ،جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سخت تاکید کی ہے اور اس کے ترک پر وعید سنائی ہے، جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :”خدا کی قسم !تم ضرورنیکی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ تم عذاب الہٰی کے مستحق بن جاؤگے پھر دعا بھی کروگے تو قبول نہ ہوگی ”(ترمذی)۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضی پر چلنے کی توفیق عطا کرے ، گناہوں سے بچائے اور اپنے غیظ و عذاب سے محفوظ فرمائے۔(آمین)

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
email: matabassum81@gmail.com,
0300-4709102