کورونا وائرس کے حوالے سے ایک اچھی خبر آئی ہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنائی گئی کورونا ویکسین کے ابتدائی نتائج نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ وہ وائرس کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بھی بنارہی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی گئی اس ویکسین کا تجربہ ایک ہزار 77 افراد پر کیا گیا اور ان کے جسم میں ویکسین انجیکشن کے ذریعے داخل کی گئی تاکہ ان کا جسم ایسے اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز (وائٹ بلڈ سیلز) بناسکے جو کورونا وائرس کا مقابلہ کرسکیں۔
خیال رہے کہ ٹی سیلز دراصل مدافعی خلیے ہوتے ہیں جن کا کام ہمارے جسم سے انفیکشن کا صفایا کرنا ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اب تک کے نتائج نہایت امید افزا ہیں تاہم فی الحال یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ ویکسین کورونا سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی ہے یا نہیں، اس لیے بڑے پیمانے پر آزمائش کی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے 10 کروڑ ویکسین کا پیشگی آرڈر دے رکھا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی نتائج تو امید افزا ہیں لیکن یہ بات یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہ ویکسین لوگوں کو دیے جانے کے لیے مکمل محفوظ ہے۔
فی الحال تحقیق میں یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ آیا یہ ویکسین انسانوں کو کورونا سے متاثر ہونے سے بچاسکتی ہے یا صرف ان میں علامات کوکم کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ برطانیہ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہے اس لیے ایسے ممالک میں ویکیسن کا ٹرائل کرنا ہوگا جہاں متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
اگلے مرحلے میں برطانیہ میں 10 ہزار افراد پر ویکیسن کی آزمائش کی جائے گی اور اس کی آزمائش امریکا میں بھی ہوگی جہاں 30 ہزار افراد کو یہ ویکسین دی جائے گی جب کہ برازیل میں 5 ہزار اور جنوبی افریقا میں 2 ہزار افراد پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔
اس ویکیسن کی آزمائش کا سب سے اہم مرحلہ ‘چیلنج ٹرائلز ‘ ہوگا جس میں ویکسین دینے کے بعد منتخب افراد میں جان بوجھ کر کورونا وائرس بھی داخل کیا جائے گا اور پھر ویکیسن کے نتائج اور مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ کورونا ویکسین آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں اور فارما کمپنی کے اشتراک سے بنائی جا رہی ہے اور اپریل میں اس کا انسانی تجربہ شروع کیا گیاتھا۔
دنیا بھر میں کورونا کے تیزی سے پنجے گاڑنے کے باعث اس ویکسین کو بے مثال تیز رفتاری کے ساتھ تیار کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس ویکیسن کو چمپانزی (بندر) میں زکام کی عام وجہ بننے والے ایک وائرس کو جینیاتی انجینیئرنگ کے ذریعے تبدیل کرکے بنایا جارہا ہے۔
اس وائرس کو اتنا زیادہ تبدیل کیا گیا ہے کہ یہ انسانوں کو بیمار نہ کرسکے اور دیکھنے میں بھی کورونا کی طرح لگے، اس کے لیے کورونا وائرس کے پروٹین سے بنے نوک دار حصوں کی خصوصیات کو جنیاتی طریقے سے ویکسین کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ یہ ویکسین کورونا کی طرح ہوگی اور ہمارے جسم کا مدافعتی نظام ویکسین داخل ہونے کے بعد یہ سیکھ لے گا کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ویکسین مکمل طور پر مؤثر قرار دے دی گئی تو بھی اس سال کے آخر تک اسے بڑے پیمانے پر تیار کرکے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا رہا تو آئندہ سال تک ویکسین بڑے پیمانے پر فراہم کی جاسکے گی۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 6 لاکھ 9 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 46 لاکھ سے زائد ہے۔
برطانیہ سمیت مختلف ممالک ویکیسن کی تیاری کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں اور مختلف ممالک میں اس کی انسانوں پر آزمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔