تحریر : عماد ظفر وطن عزیز میں زیادہ تر موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو منتھلی پیکج کی سہولیات دیتی ہیں تا کہ صارف ان پیکجز سے فائدہ اٹھا کر موبائل کمپنیوں کے ساتھ وابستہ بھی رہے اور انہیں سروسز کے پیسے بھی مہیا کرتا رہے. اس مقصد کیلئے موبائل کمپنیاں کڑوڑوں روپوں کے اشتہارات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دیتی ہیں. کچھ عرصے سے سیاست میں بھی چند سیاسی جماعتوں اور قائدین نے موبائل فون کمپنیوں کی طرح پیکجز نکال لیئے ہیں. ان میں سے ایک انقلاب کے داعی طائر القادری ہیں جو سالانہ پیکج کی آفر اپنے سیاسی صارفین کو دیتے ہیں جبکہ دوسرے محترم عمران خان ہیں جو ماہانہ پیکج کی خدمات سیاسی صارفین تک پہنچاتے ہیں. طائر القادری صاحب سالانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں تشریف لاتے ہیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنے انقلاب کی تشہیر کرتے ہیں اور پھر ارباب اختیار یا مریدین سے لمبی چوڑی رقم بٹورنے کے بعد واپس کینیڈا پدھار جاتے ہیں.
دوسرے صاحب تبدیلی کےطنام پر ماہانہ کوئی نہ کوئی احتجاجی سلسہ جاری رکھتے ہیں اور یوں اپنے وزارت عظمی کی شیروانی نہ پہن پانے کی محرومی اور غصہ شہروں کو بند کر کے یا عام شہریوں کے معمولات زندگی کو متاثر کر کے نکالتے ہیں . جناب طاہر القادری صاحب نے راولپنڈی کے فلاپ شو کے بعد بھانپ لہا تھا کہ اب سوائے ان کے مریدین کے کوئی بھی ان کا انقلابی چورن خریدنے کو تیار نہیں.اس لیئے انہوں نے آرام و سکون سے مریدین کے چندوں اور قربانی کی کھالوں سے حاصل ہونے والی رقم کو ہی غنیمت جانتے ہوئے یورپ کا رخ کر لیا.
رائے ونڈ مارچ کے معاملے میں یوں عمران خان صاحب پھر تنہا رہ گئے اور قوی امید ہے کہ اگلے مہینے وہ پھر کسی نئے فلاپ سیاسی پیکج کے ساتھ پھر سے سڑکوں پر ہوں گے. آنکھیں اب مسلسل یہ تماشہ دیکھنے کا اس قدر عادی ہو چکی ہیں کہ نہ تو اب ان منتھلی اور سالانہ سیاسی پیکجز والوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور نہ تعجب. لیکن سیاسی میدان میں یہ روز نت نئے پیکجز بیچنے والے شریف برادران کی گرفت سیاست میں مضبوط سے مضبوط تر کرتے جا رہے ہیں. ہر یو ٹرن اور ہر دفعہ کی پسپائی حکومت وقت کو سیاسی محاذ پر مزید توانا کیئے ہی جا رہی ہے. دوسری جانب ان سیاسی تماشوں کے باعث ابھی تک عام آدمی کے مسائل نہ تو حل لیئے جا سکے اور نہ ہی ان کی طرف کوئی خاص توجہ دی جا سکی.
Imran Khan and Tahir-ul-Qadri
> وہ تمام شعبہ جات جو بنیادی انسانی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ تعلیم صحت روزگار انصاف کی فراہمی ان شعبہ جات میں حکومت وقت کی ناکامیاں صرف اور صرف طاہر القادری اور عمران خان کے آئے روز کے سیاسی ڈراموں کے باعث پس منظر میں چلی گئیں. الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا انہی دو افراد کی سیاست کو محور گفتگو بنائے پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی کے مسائل پر بات تک کرنا بھی بھول گیا. دوسری جانب آفرین ہے ان تمام افراد پر جو آج بھی تبدیلی یا انقلاب کا چورن شوق سے کھاتے ہیں لیکن کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ آخر اس قدر شور و غل ہنگامے اور ہیجان کے بعد انہیں پھر سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے نہ تو ان کے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی قابلیت. یہی حال روشن پاکستان کا شوربہ خریدنے والوں یا بھٹو کے چورن کے گاہکوں کا ہے.
نہ تو نواز شریف انتظامی طور پر اس ملک میں سٹرکچرل ریفارمز کی اہلیت رکھتے پیں اور نہ بھٹو کی جماعت. جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل نہ صرف مضبوط ہوتا رہتا ہے بلکہ عوام میں بھی شعور اجاگر کر کے انہیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا چناو ذات پات برادری یا کسی بھی اور تعصب سے ہٹ کر محض میرٹ کی بنیاد پر کر سکیں. لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جمہوریت کا دور دور تک نہ تو کوئی نام و نشاں نظر آتا ہے اور نہ ہی ڈھونڈنے سے کوئی سراغ ملتا ہے. جس مینڈیٹ کا شور مچا کر اپنے اپنے اقتدار کو دوام دیا جاتا ہے وہ مینڈیٹ ان غریبوں سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے جو دو وقت کی روٹی اور تھانے پٹوار یا ہسپتالوں میں دھکے کھانے کے علاوہ نہ تو کچھ اور سوچ سکتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں.
عمران خان سے لیکر نواز شریف اور زرداری سے لیکر اسفند یار ولی سب جانتے ہیں کہ ایسے مظلوموں سے ووٹ محض ایک وقت کی روٹی دیکر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں خط غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے کمی نہیں آتی.اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایسا مینڈیٹ طالع آزماؤں کے سامنے بہت ہلکا ثابت ہوتا ہے. خیر وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ سماجی ڈھانچے میں تبدیلی لانے سے لیکر مختلف حساس افکار و نظریات پر نہ تو کوئی جمہوری لیڈر کام کرنا پسند کرتا ہے اور نہ ہی کوئی آمر. اور جب تک یہ اقدامات نہیں اٹھائیں جائیں گے تب تک یہ تماشہ جاری و ساری رہے گا.خیر بات کا آغاز منتھلی اور سالانہ پیکجز سے ہوا تھا.
Imran Khan
ایک صاحب اب یورپ میں آرام فرما رہے ہیں جبکہ دوسرے صاحب ان دنوں نتھیا گلی میں موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں. البتہ سڑکوں پر لڑنے مرنے کیلئے اور سیاسی مقاصد کے حصول ان دونوں حضرات کو غریبوں یا سفید پوشوں کے بچے کا لہو درکار ہوتا ہے اور قربانی بھی انہی سے مانگی جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب عوام کو ملک کی خاطر قربانی کا درس دیا جاتا ہے یا انصاف کی فراہمی اور سادگی اور قناعت دوارے کہا جاتا ہے اور نواز شریف زرداری یا نویس سیاستدانوں کو عیاش اور بادشاہ قرار دیا جاتا ہے تو کیوں کوئی بھی ایک سچا قلم کا سپاہی اینکر یا سیاسی کارکن ان دونوں لیڈران سے یہ نہیں پوچھتا کہ آپ میں سے کون نبی کریم کی طرح سادہ زندگی بسر کر رہا ہے.
بات بہت سیدھی سی ہے کہ مریدین چاہےقادری صاحب کے ہوں عمران صاحب کہ یا پھر نواز شریف کے ،یہ سب جب تک ذہنی غلامی کے طوق کو گلے سے اتار نہیں پھینکیں گے تب تک منتھلی اور سالانہ پیکج والے سیاستدان اسی طرح اپنے اپنے پیکج بیچ کر اپنے اپنے مفادات کی جنگ عوام کے باتوں کندھوں کے سہارے جاری رکھیں گے. چہرے تبدیل ہونے سے نظام نہیں تبدیل ہوا کرتے بلکہ سوچوں اور نظریات کی تبدیلی سے نظام تبدیل ہوتے ہیں. بصورت دیگر منتھلی سالانہ یا پنج سالہ پیکج بیچنے والے شعبدہ گر ہی مصنوعی پیکج بیچتے رہتے ہیں.