تحریر : وکیل سائیں سید جعفر حسین بادشاہ کا شمار امام خراسانی اخنذاہ سیف الرحمن مبارک کے اولیں خلفاء میں ہوتا ہے آپ جلال آباد کے نواحی علاقے کاشکوٹ میں سادات گھرانے میں پیدا ہوئے اولیاء کے خانوادے میں آنکھ کھولنے کے باعث آپ کی تعلیم و تربیت خالص مذہبی انداز میں ہوئی بچپن میں جب آپ تعلیم حاصل کرتے تھے تو ساتھی طالب علم نے آپ کو گالی دی آپ نے صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور اس طالب علم کو کہا کہ لاؤ میں تمھارا منہ چوم لوں کہ گالی دیتے وقت تمھارے منہ کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی وہ طالب علم اپنے رویے پرنادم ہو ااور معافی کا طلبگار ہوا آپ کا لڑکپن بھی پاکیزہ عادات و اطوار کا حامل رہا کاشکوٹ چونکہ دیہاتی علاقہ تھاغربت زیادہ تھی اور لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے آپ شہر چلے جاتے اور وہاں سے مسواک ،تسبیح ،سرمہ اور عطر لے آتے لڑکے آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے آپ ان سے فرماتے کہ تسبیح ،سرمہ ،مسواک اور عطر لے لو بس نماز پڑھا کرو،پگڑی پہن لو اور داڑھی رکھ لو یہ ان چیزوں کا ہدیہ ہے اور آپ اس طرح وہ سب چیزیںان لڑکوں میں تقسیم کر دیتے تھے آپ پر والدین کے حقوق بھی تھے اورآپ کے اندررسلوک کی طلب بھی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ اس لیے اس وقت کے ولی کامل استاد صا حب انجرین مولانا کے دست پر بیعت کی سعادت حاصل کی انہو ں نے آپ کو قادریہ شریف کے اسباق مرحمت فرمائے اس دوران آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے آپ نے اپنے مرشد گرامی کے زیر سر پرستی چلہ کشی شروع کر دی آپ عورتوں سے نقاب کیا کرتے تھے۔
اس لیے لوگ آپ کو نقاب پوش باچا صاحب کے نام سے پکارا کرتے تھے کافی عرصہ تک آپ اپنے مرشد کی خدمت میں رہے اورطریقت و سلوک کی منازل طے کرتے رہے ایک دفعہ مرشد نے آپ کو بلایا اور فرمایا کہ باچا صاحب آپ گھر چلے جائو آپ نے عرض کی کہ حضور کوئی غلطی ہو گئی ہے لیکن انہوں نے فرمایا نہیں بس آپ گھر چلے جائو مرشد کے حکم سے آپ گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ آپ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے آپ سمجھ گئے کہ مرشد نے گھر پہنچنے کا حکم کیوں دیا تھا استاد صاحب انجرین مولانا کی وفات کے بعد آپ امامِ خراسانی اخنذادہ سیف الرحمن مبارک پیر ارچی کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران کی صحبت اختیار کی امامِ خراسانی نے آپکواربع سلاسل نقشبندی، چشتی، قادریہ اور سہروردیہ میں خلافت عطا کی اورباطنی اسرارو رموز اورعلوم خفی سے روشناس کیا۔
اخنذادہ سیف الرحمن مبارک نے افغانستان سے پشاورپاکستان ہجرت کی تو کچھ عرصہ بعد سید جعفر باچا صاحب نے بھی اپنے نانارسول خدا،محمد مصطفےۖ کی سنت اور اپنے مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان ہجرت کی اور پشاور کے نواحی علاقے تین قبر کو اپنا مسکن بنایا۔ مرشد گرامی کے ہاں آپ کا یہ مقام تھا کہ اخنذادہ سیف الرحمن مبارک اپنے دو خلفاء روحانی صاحب اور سید جعفر باچا صاحب کو اپنا نائب بنا کر پنجاب اپنے مریدین کی تربیت کے لیے بھیجا کرتے تھے اٹک سے میجر محمد قاسم نے اخنذادہ سیف الرحمن مبارک سے عرض کی کہ اپنے پروردہ صا حب نظر ہستی کو ہماری تربیت کے لیے روانہ فرمائیں تواخنذادہ سیف الرحمن مبارک کی نگاہ مردم شناس سید جعفر باچا صاحب پر آکے ٹھہر گئی۔
Rawalpindi
اس موقع پراخنذادہ سیف الرحمن مبارک نے میجر قاسم سے فرمایا کہ میں اپنے جگر کا ٹکڑا تمھیں عنایت کر رہا ہوں اس کا خیال رکھنا اور اس طرح آپ مرشد کے حکم سے اٹک تشریف لے آئے کچھ عرصہ آپ نے راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداںمیں بھی قیام فرمایا بعد ازاں اٹک میں ہی مستقل طور پر سکونت اختیا ر کر لی ہزاروں طالبِ جذب و حال آپ کے در گراں مایا پر حاضری دیتے اور عشق و مستی کے گوہر اپنے دامن میں سمیٹ لیتے تھے مادہ پرستی سے پراگندہ اذہان آپ کی نگاہ لطف و کرم سے پاکیزہ و معطر ہو جاتے تھے طریقت و سلو ک کے راہی آپ کے پاس آتے اور آپ کی خصوصی توجہ اور التفات کی بدولت باطنی اسرار و رموز کے واقف حال بن جاتے ۔آپ نے لاکھوں مردہ قلوب کو اللہ کے ذکر سے منور کیا آپ کی نورانی محفل میں انوار وتجلیات کی ایسی بارش ہوتی تھی کہ حاضرین و سالکین نہال ہو جاتے تھے شراب و شباب کے رسیا،بدقماش و بد کردار اور بے راہرو آپ کی محفل میں آتے تو صاحب کردار،پیکر علم وعمل اوروقت کے قلندر بن جاتے۔ تحمل و بردباری،عاجزی و انکساری ، صبر وقناعت،جود وسخا اورفقر و استغنا آپ کے بنیادی وصف ہیں آپ کے مناقب و کرامات بیش بہا ہیں۔
ایک بار آپ کے زیر سر پرستی محفل ذکر جاری تھی کلر سیداں سے تعلق رکھنے والے ایک مجذوب سالک کو آپ کی خصوصی نظر عنایت سے مشاہدہ ہواآپ نے فرمایایہ کچھ دیکھتا ہے اسے مائیک دوآپ ایسا حکم بہت کم فرمایا کرتے تھے۔ مرشد کے حکم سے اس سالک نے بتایا کہ فخر موجودات ،سرور کائنات ،امام الانبیائ،محمد مصطفیۖ تشریف لائے ہیں اورباچا صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیںکہ یہ میر ی اولاد ،میرا نواسہ ہے میں نے یہ ہیراتمہارے لیے بھیجا ہے اس کی قدر و منزلت کرو۔آپ کے در دولت سے کبھی کوئی خالی نہیں گیا جو بھی آیا اپنے من کی مراد پا گیا۔آل ِ رسو ل سے نسبت کی بدولت آپ کو بھی شہادت کا رتبہ نصیب ہوا27ربیع الاول1435 ھ کی رات چند ملعونوں نے آپ کو گھر میںگھس کر شہید کر دیا آپ کا مزارمحلہ نور شیںباغ روڈاٹک شہر میں واقع ہے۔
URS Mubark
لاکھوں بندگانِ خدا آج بھی آپ کے فیض لاثانی سے مستفید ہو رہے ہیں آپ کا تیسرا سالانہ عرس مبارک اس بار بھی نہایت عقیدت و احترام سے اٹک میں منایا جائے گا بعد ازاں عرس کی مناسبت سے ایک وجدانی محفل آپ کے محبوب خلیفہ توقیرا لاسلام حسینی کی رہائش گاہ نیو سٹی واہ کینٹ میںمنعقد ہوگی سید جعفر حسین بادشاہ کے نواسہ اور نائب احمد حسن جان اوراحمد حسین باچا اس محفل میں خصوصی شرکت کریں گے جبکہ آپ کے خلفاء اور مریدین و معتقدین بھی کثیر تعداد میں حاضر ہو کر اپنے دلوں کو باچاصاحب کے نورانی فیض سے مشکبار کریں گے۔ زہرہ کا تو نو رِ نظر، حسنین تیرے داور راضی ہوا تجھ سے خدا،سید جعفر حسینی بادشاہ