پیڈ فائونڈیشن کی کاوشیں

Pakistan Problems

Pakistan Problems

تحریر : وقار احمد اعوان
یقینا ملک خداداد کے موجودہ حالات پرجتنابھی لکھا جائے کم ہے کیونکہ آئے روز کے مسائل پاکستانی کوشدید ذہنی کوفت میں مبتلا کررہے ہیں،کہاں پر کیا ہورہاہے اور کیونکر ہم ان حالات کا سامنا کررہے ہیںکوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جاننے کی کوشش کررہاہے۔اور شایدہماری یہی کمزوری ہمیں کمزور سے بزدل بنانے پر مجبور کردیتی ہے۔لیکن حالات اتنے بھی بگڑ ے نہیںکہ ہم اپنا حوصلہ ہار کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جائیں۔ہم چونکہ ایک اسلامی ملک کے باسی ہیں اس لئے یہاں زیادہ تعداد مسلمانوںکی ہے ،لیکن ہمارے بیچ کچھ ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے وجود سے کسی بھی طور انکار نہیںکیا جاسکتا۔یہی لوگ قیام پاکستان میں اہم کردار میںنظرآئے ،جیسے قیام پاکستان کے وقت جب پنجاب کی تقسیم کی بات آئی تو پنجاب کے مسیحی ایم پیز نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ۔اس بارے ان سے جب پوچھا گیا تو انہوںنے جواب دیا جوکہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ”مسلمان متحدہ ہندوستان میں اقلیت میںتھے اس لئے وہ اقلیت کے مسائل کو بہترطور سمجھ سکتے ہیں”۔اس کے علاوہ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمدعلی جناحکا 11 اگست کا وہ تاریخی خطبہ بھلا کون بھلا سکتا ہے کہ جس میں انہوںنے ارشادفرمایاتھا کہ ”آپ آزاد ہیں اپنے مندروں،مسجدوں ،گرجا گھروں اور دیگر مذہبی مقامات کو جانے میں۔آج کے دن آپ لوگوںپر کوئی روک ٹوک نہیں۔

آپ پاکستانی ہیں اور آپ نے مل جل کر پاکستان کے لئے کام کرنا ہے”۔یقینا بابائے قوم کے ان تاریخی کلمات کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ جتنے پاکستانی مسلمان ہیں اتنے پاکستانی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں۔اور جتنے مسائل 97فیصد مسلمانوںکے ہیں وہاں اتنے مسائل دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوںکے بھی ہیں۔اسی سلسلے میںپیڈ فائونڈیشن نے گزشتہ روز پشاورکے ایک مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کاانعقادکیاگیا جس کامقصد ملک بھرمیں اقلیتوںکو آنے والے انتخابات میں ان کے صحیح نمائندے منتخب کرانے کے لئے طریقہ کارکو وضح کرناتھا۔تقریب میں پشاورکے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے موجود تھے۔تقریب کا مقصد چونکہ واضح تھا کہ کس طرح سے ملک بھر میں اقلیتیں اپنی مرضی کے نمائندے چن سکتی ہیں۔اس حوالے مختلف آرائیں سننے کوملیں جس میں ڈوول ووٹ کی بات کچھ زیادہ ہی کی جارہی تھی۔یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں 97فیصد مسلمان رہتے ہیں،اگر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ڈوول ووٹ کی بات کریں تو یقینا ان کے لئے آگے آنے کے مواقع کم ہوجائیںگے۔

اس کے علاوہ ان کی تعداد اس بات کی اجازت بالکل بھی نہیں دیتی کہ ان کے لئے ڈوول ووٹ طرز طریقہ انتخاب رکھاجائے۔اس کے علاوہ ایک صاحب نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا مشورہ دیا کہ جس پر تو جتنی بھی بات کی جائے ہے کیونکہ موصوف نے قائداعظم کے چودہ نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جس طرح قائداعظم نے اپنے چودہ نکات میں برطانوی حکومت پر واضح کردیا تھا کہ آپ اگر ہندوستان میں پرامن حالات دیکھنا چاہتے ہیں تو ا سکے لئے جداگانہ طریقہ انتخاب کو ہندوستان میں رائج کیا جائے ۔یہاںموصوف اپنی بات تو کہہ چکے مگر اس با ت کو تبھی اختیار کیا جاسکتا ہے جب آپ کسی کی غلامی میںہو۔جیسے تقسیم ہند سے پہلے مسلمان اور ہندو اوردیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ متحدہ ہندوستان میں رہ رہے تھے۔ یہاںتو مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے کسی کے غلام نہیں اور اسی بات کو راقم اوپر واضح کرچکا کہ جتنے پاکستانی مسلمان ہیں اتنے پاکستانی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں۔تو پھر جداگانہ طریقہ انتخاب کو کیسے رائج کیا جاسکتا ہے۔

Democracy

Democracy

تقریب میں موجود اورنامور مذہبی سکالر مدنی صاحب کے صاحبزادے نے اس بات کا خوب جواب دیا کہ جس طرح مولانا ابولکلام آزاد نے کانگریس کے اندر رہ کر اپنی حیثیت منوائی ویسی ہی محنت اور مقام آپ لوگوںکوبھی بنانا ہوگا۔انہوںنے اس بات کا بہترین حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کانگریس کے سب سے طویل المدت صدر مولانا ابواکلام آزاد رہے تھے۔اس لئے آپ لوگوںکو پہلے اپنی حیثیت واضح کرنا ہوگی ،آپ لوگوںکو ضرورت بننا ہوگا تب جاکر آپ کسی بھی سیاسی جماعت یا جمہوری حکومت میںاپنی بات منواسکتے ہیں۔یقینا ان کی بات میں دم تھا ،اوربڑے بزرگوں سے بھی سنتے آئے ہیں آپ اگر کسی بھی معاشرہ میں کوئی مقام چاہتے ہیں تو آپ لوگوںکی ضرورت بن جائیں لیکن ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ۔اور میں پہلے بھی کہہ چکا کہ جہاں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسائل کا شکارہیں وہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔جیسے دہشت گردی کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں۔جہاں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینزاسمبلیوںمیںجاکر ان کے حقوق کے لئے کسی بھی قسم کی تگ ودو نہیںکرتے ویسے ہی مسلمانوںکابھی حال ہے۔اگر ہم صرف یہ کہتے ہیںکہ اقلیتوںکو حقوق ملیں تو یہ غلط ہوگا بجائے اس کے کہ ہم کہیں کہ تمام پاکستانیوںکو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔

البتہ اکثریت اور اقلیت کا لحاظ ضرور رکھناہوگا۔جیسے اقلیت برادری گلہ کرتی نظرآتی ہے کہ انہیں داخلے یا جاب کوٹہ میں ہمیشہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔تو جناب آپ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ ہمارے پشاورشہر میںکتنے ہی تعلیمی ادارے ہیں ۔جیسے آپ پشاورکے نامور میڈیکل کالج ہی کی مثال لے لیں ،ہرسال میڈیکل کالج میں قریباً 200 سیٹس انائونس کی جاتی ہیں ۔اسی طرح قریباً ہرسال ایف اے ایف ایس سی سے ایک لاکھ سے زائد طلباء وطالبات مختلف کالجز سے فارغ ہوکر آتے ہیں ،میڈیکل کالج نے تو 200 سیٹس انائونس کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلی اور 200 طلباء وطالبات کو اپنے کالج میں داخلہ دے دیا اب باقی کے نولاکھ اٹھانوے ہزار آٹھ سو طلباء وطالبات کہاں جائیںگے۔اس بات کو مدنظررکھ کر اگر سوچا جائے تو یقینا بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہاں ”آوے کا آواہی بگڑا ہے” کیونکہ جہاں ایک لاکھ طلباء وطالبات کے لئے کوئی نیا میڈیکل کالج نہیں وہاں بے چارے اقلیتوںکے لئے مزید کوٹہ کہاں سے آئے گا۔

اسی طرح مختلف محکمہ جات میں نئی آسامیاں پیدا کرنا یقینا مشکل کام ہے کہ جس سے متاثر جتنے مسلمان ہیں اتنے دیگر بھی ہیں۔ اس لئے یہ اجتماعی مسائل ہیں اور جن کا حل اجتماعی طور ہی ممکن ہوسکتاہے ۔تقریب میں چونکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے اس لئے ان میں ایک کی یہ رائے بھی سامنے آئی کہ آئندہ انتخابات سے پہلے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوںکو اپنی اپنی سیاسی جماعت بنالینی چاہیے تاکہ وہ عام انتخابات میںاپنی مرضی کا نمائندہ چن سکیں۔توجناب یہ بات تو بالکل سمجھ سے باہر ہے کیونکہ پاکستان میں ہرنئی وجود میں آنے والی سیاسی جماعت قریباً موروثی ہوتی ہے ،جیسے آپ پاکستان مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیں۔آپ کو پاکستان کی بانی مسلم لیگ کہیں نہیںملے گی۔

Quaid e Azam and Allama Iqbal

Quaid e Azam and Allama Iqbal

ہر مسلم لیگ نے اپنے اپنے جھنڈوںمیںقائداعظم اور علامہ محمداقبال کی تصویریںتو لگا ئی ہوتی ہیں لیکن انہیں قائداعظم اور علامہ اقبال کے وژن سے کوئی سروکار نہیںہوتا ۔اسی طرح موروثی جماعتیں ہی پاکستان میں سیاست کررہی ہیں سوائے جماعت اسلامی اور جس کا حال یہ ہے کہ 1971سے اب تک مخلوط حکومتوںمیںچلی آرہی ہے۔جس کی بڑی وجہ جماعت کے اندر موروثی سیاست کانہ ہونا ہے۔اس پر ہر دوسرا تیسراپاکستانی اپنے اپنے مفاد ڈھونڈنے کے لئے کبھی ایک سیاسی جماعت تو کبھی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار رکرتا رہتاہے۔جیسے آپ لوگوںکے مشاہدے میں آیا ہوگا کہ ایک گھر میں اگرچار بھائی ہیں تو ایک پاکستان مسلم لیگ ،دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی،تیسرا پاکستا ن تحریک انصاف اور چوتھا جمعیت علمائے اسلام میں ہوگا ۔ایسے میں بے چارے عوام جائیں تو جائیں کہاں۔جب ایک ہی گھر میںمختلف نظریات کے لوگ دیکھنے کوملیںگے توعام آدمی تو صرف تماشہ ہی دیکھتا رہے گا ۔اس لئے یہ بات کرنا کہ دیگر مذاہب والے اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بنا کر عام انتخابات میں حصہ لیںتو غلط ہوگا۔

وجہ پاکستان میں مورثی سیاست اور اس پر سیاسی جماعتوںکی بہتات ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت قریباً 230 رجسٹرڈسیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں ان کے علاوہ 24سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے لئے اپنی اپنی رجسٹریشن کروانے میں مصروف ہیں۔تو کل ملا کر عام انتخابات کے لئے 254سیاسی جماعتیں ہوجائیںگے۔ اب ان سیاسی جماعتوںمیں مسلمانوںکے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے کام کررہے ہیں۔اس کے علاوہ نظریاتی جماعتوںمیں سے اپنے اپنے لوگوںکو الگ کرنا بہت ہی کٹھن مرحلہ ہوگا ۔اور اس پر الگ سیاسی جماعت اور الگ پلیٹ فارم سمجھ سے باہر بات ہے۔یہاں میں نامور کالم نگار کلدیپ نائر کا ایک جملہ کوٹ کرو ں گا کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں اگر کوئی سیاستدان ہے تو وہ ہے مولانا فضل الرحمن ۔مطلب مولانا صاحب کس طرح سے اپنے علاقے کے لئے مرکزی حکومت سے میگا پراجیکٹس منظورکروارہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں رہنے والی اقلیتی برادری مختلف سیاسی جماعتوںکے اندر رہ کر اپنے اپنے مطالبات منوا سکتی ہیں بشرطیکہ کسی بھی سیاسی جماعت میں ان کی کوئی واضح حیثیت ہو۔یہاںایک اہم بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ملکی سیاست میں شریف لوگ کچھ کم ہی آتے ہیں۔اس لئے ہمارے ہاں وہی لوگ سیاست کے میدان میں زیادہ قسمت آزمائی کرتے نظرآتے ہیں جن کو سستی شہرت اور دولت کا لالچ ہوتا ہے۔ایسے لوگ نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ ان پڑھ بھی ہوتے ہیں کہ جن کا تعلیم وتعلم کے ساتھ دور دورکا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہوتا ایسے میں ان لوگوںسے کسی بھی قسم کی کوئی توقع رکھنا درست نہ ہوگا۔اورالگ سیاسی جماعت بارے سوچنا کم عقلی ہی کہلائے گی مگر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی جگہ بنانے میںہی کامیابی ہے۔

Waqar Ahmad Awan

Waqar Ahmad Awan

تحریر : وقار احمد اعوان