کوئی تو ہجر کی وحشت میں سنبھالے مجھ کو درد کے گہرے سمندر سے نکالے مجھ کو کوئی تو آئے اذیّت سے بچا لے مجھ کو کوئی تو بانٹے میرے دردِ مسافت آکر کوئی تو ہجر کی وحشت میں سنبھالے مجھ کو وہ گیا ایسا کہ صبحوں کی نمو ماند ہوئی! کون لوٹائے شبِ غم میں اجالے مجھ کو کس کو معلوم کہ وہ کب کا مجھے چھوڑ گیا دنیا جس شخص کے دیتی ہے حوالے مجھ کو یہ گیا وقت تیرے ہاتھ نہ آئے گا کبھی یوں نہ دے جانِ جہاں دیس نکالے مجھ کو بھرم کچھ میری محبت کا بھی رکھ لے آکر میں اگر اس سے خفا ہوں تو منالے مجھ کو اس کو رسوا نہ کروں، روز تماشا بھی بنوں دے گیا جاتے ہوئے شوق نرالے مجھ کو