تحریر : محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد میرے ایک طرف عورت بیٹھی رو رو کر اللہ سے دعا مانگ رہی ہے کہ اللہ میرے خاوند کی حفاظت فرما اور دوسری طرف ایک بھائی پریشانی کی حالت میں کبھی اوپر دیکھ رہا ہے اور کبھی اپنے صاف ستھرے جوتے کی نوک زمین پر ماررہا ہے ..!اور میں خود مین آپریشن تھیٹر کے باہربنچ پربیٹھا پریشانی کی حالت میں اللہ سے دعائیں مانگ رہا ہوں …کہ اللہ میری والدہ کا آپریشن خیر وعافیت سے کردے ۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ زندگی کی قیمت ہسپتال میں لیٹے اس مریض سے پوچھیں جو آہستہ آہستہ اپنی زندگی کی بازی ماہر ترین سرجنوں ، ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی موجودگی میں ہار رہا ہے، اس مریض سے پوچھیں جو اپنا بازو کندھے تک کٹوا کر بھی ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا تڑپ رہا ہے،اس 16 سال کی لڑکی سے پوچھیں جو لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی آس میں سسک سسک کر مر رہی ہے ۔صحت مند زندگی اللہ کی نعمتوں میں ایک ایسی نعمت ہے جس کا احساس بیماری میں ہمیں ہوتا ہے ۔ انسان کے صحت و فراغت کے لمحات زندگی کو اکٹھے کرنے اور بیماری میں اللہ سے سانسیں مانگنے میں گزر جاتے ہیں اور نتیجتاََ زندگی بقول بہادر شاہ ظفر یوں گزر جاتی ہے۔
عمردراز مانگ کے لائے تھے چاردن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
4فروری بروز ہفتہ سے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں چکر لگ رہے ہیں … والدہ کو پتے میں پتھریاں ہونے اور دل کا مرض لاحق ہونے کی وجہ سے نجی ہسپتال سے اِدھر لانا پڑا۔ اگرچہ پہلے بھی الائیڈ ہسپتال کے چکر لگتے رہے ہیں لیکن اس وقت خود کو سب کچھ دیکھنا اور سہنا پڑرہا ہے تو محسوس ہورہا ہے کہ ہسپتال کی دنیا کیسی ہے۔ہم میں سے ہر بندہ کرپشن کرپشن کرتا ہے لیکن بندہ خواہ وہ خاکروب ہو،نائب قاصدہو، سیکورٹی گارڈہویاپھر دیگر چھوٹا وبڑاعملہ ہر کوئی اس گندمیں اٹا پڑا ہے ۔ہسپتال کے چھوٹے عملے میں کرپشن اس قدرعام ہے کہ آپ سرکاری ہسپتال کے خاکروب،نائب قاصد،سیکیورٹی پرمامور عملے کو 100/50روپے دیں اور وقت کی قیدسے ہٹ کر اپنے مریض کی نہ صرف تیمارداری کریں بلکہ آنے والے تیمارداروں کا رش بھی ہسپتال کے بیڈ پر لاسکتے ہیں۔ہسپتال کے چھوٹے عملے کا بعض اوقات مریضوں اور لواحقین کے ساتھ رویہ اس قدر ہتک وذلت آمیز ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ،پھر آپریشن و دیگر خدمات کے بعد جو نذرانوں کی مانگ چلتی ہے وہ ہسپتال سے فراغت تک جاری رہتی ہے۔یہاں پر اس بات کی وضاحت کردوں کہ بعض لواحقین کا رویہ بھی ان بے چاروں کے ساتھ اس قدر جارحانہ ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے لواحقین نہیں بلکہ داروغہ جیل ہیں ۔ایک مریض کے ساتھ پورا گاؤں امڈ آتا ہے اور گارڈ کے باربار منع کرنے پر بھی دھینگا مشتی کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے ۔جس سے دوسرے مریضوں سمیت عملے کے لئے شدید مشکلات بھی پیش آتی ہیں ۔جہاں کرپشن زدہ عناصر کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں بطور شہری اپنے حقوق وفرائض کی آگہی بھی ضروری ہے تاکہ بحثیت قوم اپنی مشکلات میں کمی کرسکیں۔کیونکہ ہمارے جو فرائض ہیں وہ کسی نہ کسی کے حقوق ہیں ۔ جب ہم اپنے فرائض پورے کریں گے تو دوسروں کو حقوق خودبخود ملنا شروع ہو جائیں گے۔
Doctors Protest
پاکستان میں جہاں 1122جیسے انسانیت دوست ادارے اپناکام خوش اسلوبی سے کررہے ہیں وہیں کچھ پاکستانی غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنی حیثیت کے مطابق خدمت انسانیت میں مصروف عمل ہیں۔ میرا حالیہ مصیبت میں جن تنظیموں سے واسطہ پڑا یا جن کو میں نے کام کرتے دیکھا ان میں فلاح انسانیت فاونڈیشن اور سیلانی ٹرسٹ کا کام بلاشبہ قابل تعریف ہے ۔آپ ان دونوں تنظیموں کے کام کو الائیڈ ہسپتال کے باہروہیل چیئرز،سٹریچرز اور واٹرپلانٹ ودیگرخدمات کی صورت میں عملاََدیکھ سکتے ہیں ۔ بلاشبہ جہاں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن والوں کو میں نے سیلاب، زلزلے و دیگر آفات میں کام کرتے دیکھاہے وہیں فیصل آباد کے بڑے ہسپتال میں ان کے کام دیکھ کر دلی اطمینان وسکون ہوا … داڑھی جسے مغربی پروپیگنڈہ نے دہشت کی علامت بنادیا تھا آج الحمد للہ فلاح انسانیت فاونڈیشن جیسے رفاہی و فلاحی اداروں کی بدولت اسلام کی دوبارہ سے علامت بن رہی ہے اور دہشت ووحشت سے محبت وخدمت میں بدل رہی ہے۔فلاح انسانیت والوں سے قلبی لگاؤ کی وجہ ان کا رفاہی و فلاحی کام کے ساتھ اپنے آپ کو داڑھی والا مسلمان منوانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ وقت جب میں الائیڈ ہسپتال میں ان کے ایک ذمہ دار کے ساتھ رہاتو جہاں ان کی خدمات کا اعتراف کرناپڑاوہیں بھاگ دوڑ کے بعد ٹانگوں میں مجھے شدید دردکااحساس ہوا جب کہ وہ خدمت کار کسی اور کی دادرسی کے لئے اسی جذبہ وہمت کے ساتھ کسی اور یونٹ میں چلا گیا۔
میڈیا میں آئے روز کسی نہ کسی ہسپتال کے باہربیٹے کی لاش پر روتاباپ ،دکھیاری ماں کی آغوش میں نومولودکا تڑپتالاشا ، بیٹے کی گود میں سررکھے مجبورماں کی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں ،اس میں جتنا ڈاکٹروں ودیگر سٹاف کا قصور ہے وہیں انتظامیہ وارباب اختیار کا بھی قصور ہے جن کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے دل کو زخم دینے والے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں بلکہ ڈاکٹرز وسٹاف سے زیادہ انتظامیہ وارباب اختیار کا زیادہ قصورہوتا ہے۔ان سب کے باوجودمیڈیکل فیلڈ میں انسانیت نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ کشمیریوں کا دردرکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا والہانہ وار اظہار بھی کرتے ہیں ۔ جس کی مثال مجھے مسلم میڈیکل مشن کی طرف سے مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرہ کے دوران دیکھنے کو ملی ۔ الائیڈ ہسپتال کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرے میں مختلف ہسپتالوں کے ڈاکٹرز، پروفیسرز اور میڈیکل شعبہ سے وابستہ طلباء نے شرکت کی۔ مظاہرہ میں شریک ڈاکٹرز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور حافظ محمد سعید کی نظربندی کیخلاف اردو اور انگریزی میں لکھی گئی تحریروں پر مبنی کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیریوں سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ، پیلٹ متاثرہ کشمیریوں کے علاج معالجہ کی اجازت دی جائے اورحافظ محمد سعید کی نظربندی نامنظور، نامنظور جیسی تحریریں درج تھیں۔ اس موقع پر مسلم میڈیکل مشن کے چیف کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی، ڈاکٹر سلطان محمود صدر میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن،ڈاکٹر معروف وائنس صدر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب، ڈاکٹر رائے عارف صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن،ڈاکٹر عبدالستار قریشی پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ،حلیم خان نیازی صدر ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن پنجاب ،پروفیسر ڈاکٹر طفیل محمد، ڈاکٹر جاوید اقبال،ڈاکٹرمحمد الیاس و دیگر نے خطاب کیا اور کہاکہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔رتی فوج ایمبولینسوں سے زخمیوں کو اتار کر انہیں وحشیانہ بربریت کا نشانہ بناتی ہے ۔ یہ ساری ویڈیوز اور تصویریں دنیا بھر کا میڈیا نشرکررہا ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے کہاکہ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مضبوط آواز بلند کی اور سال 2017ء کو کشمیر کے نام کرتے ہوئے ملک بھر میں ڈاکٹرز، تاجروں، طلباء اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد کے پروگراموں کا انعقاد کیا تو بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور پھر مودی سرکار کے دباؤ پر انہیں نظربند کر دیا گیا ہے۔
صحت وتعلیم سمیت دیگر بنیادی ضروریات عوام کو مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صحت وتعلیم کا جو حال ہوچکا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے کچھ لوگ اس مملکت کو اب بھی مل رہے ہیں جو اس کواپنے اپنے ادارے میں رہتے ہوئے دامے درمے سخنے چلانے کی سعی کررہے ہیں ،یہ تھوڑا ساطبقہ ہرجگہ موجود ہے ۔ لیکن پاکستانی قوم کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ تعلیم تو درکنار، صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں کی دستیابی سے بھی محروم ہے ۔پاکستان کو بنے ہوئے ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اب بھی ہم نہ تو صحت کے قابل قدر ادارے بناسکے ہیں اور نہ تعلیم کو عام کرسکے ہیں ۔ جہاں حکمران اپنا بلڈ پریشر تک چیک کروانے کے لئے لندن کا رخ کرتے ہوں وہاں ہسپتالوں کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔
تین دہائیوں سے زائد پنجاب میں حکومت کرنے والے اپنی ناقص پالیسیوں اورطفیلی منصوبوں کے باعث ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔حکومت وقت کو اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے ہسپتالوں کو اس قابل بنانا ہوگا کہ یہ خود یہاں علاج ومعالجہ کرواسکیں ۔سیاسی ومن پسند افراد کی تقرری ،میرٹ کی دھجیاں،ایجنٹ مافیہ کاراج اور اخلاقیات کا شدید فقدان ہونے کی وجہ سے مریض اور اس کے لواحقین جن اذیتوں کا سامنا کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔قومی دولت کوڈاکٹرز،پیرامیڈیکل سٹاف اور مشینری کی کمی کو پورا کرنے کی بجائے سڑکوں پرخرچ کیا جارہاہے ۔بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر بھوکوں مررہے ہیں اور ہم دانش سکول بناکر دانش بانٹ رہے ہیں ۔ہسپتالوں میں ادویات کی کمی سے غریب طبقہ بخار میں تڑپ تڑپ کر ووٹ کے نام پر بھیک مانگنے والے کو یاد کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردیتا ہے لیکن ووٹ کے حقدار کو اس کا خیال تک نہیں آتا۔