آج پھر اس نے میرے درد کو جگایا کچھ اس طرح میں سوچتی رہی مضراب کے تار بھی تو اس طرح بجتے ہونگے دکھ سینے سے لگا کے اوروں کے لیئے جو جیتے ہیں ایسے لوگ بھی تو زمانے میں ہوا کرتے ہو نگے لیکن اس بات پہ کیوں اس طرح رویا ہوگا دل کی بجائے سنگ جن کے سینے میں سجتے ہونگے یونہی خیال آ گیا منزلوں کی سختیاں دیکھ کر فاصلے دو قدم کے بھی عمر بھر کے لگتے ہونگے ہم منتظر رہے آہ کے اثر ہونے تک وہ آہ کی تپش سے بھی نہ جلتے ہونگے بہت رونق تھی کبھی دل میں ہمارے لیکن جب سے لگی ٹھوکر،ہر ٹھوکر پہ سنبھلتے ہونگے