تحریر: آصف خورشید رانا افغانستان میں امن کے لیے ماسکو میں ہونے والے تین ملکی اجلاس کے بعد گزشتہ تین دہائیوں سے خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کے شکارملک میں امن کی راہیں ہموار ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ اس اجلاس میں چین پاکستان اور روس شریک ہوئے تھے تاہم طے کیا گیا تھا کہ آئندہ افغانستان کوبھی اس کا حصہ بنایا جائے گا ۔ اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ تینوں ممالک کا مل کر افغانستان کے بارے میں سوچنا اس بات کا عکاس تھا کہ افغانستان میں عمل کو خطے کے لیے کس قدر اہم سمجھا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی امید تھی کہ پاک افغان تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ تاہم لاہور اور سیون شریف میں بم دھماکوں کے بعد پاک افغان پھر سے انتہائی کشیدہ ہو گئے کیونکہ ان دھماکوں میں ملوث افراد کا تعلق افغانستان سے ثابت ہو رہا تھا اور ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کے پیچھے افغانستان میں موجود ان دہشت گردوں کا ہاتھ ہے جو سوات آپریشن اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں فرار ہوئے۔ یہ اطلاعات بھی مصدقہ ہیں کہ بھارتی کی خفیہ ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس ان دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے اور انہیں مکمل سہولت فراہم کی جارہی ہے۔دھماکوں کے فوری بعد پہلا سخت ردعمل افغانستان کے حوالہ سے آنا فطری عمل تھا ۔پاکستان نے افغان سفارتخانے کو طلب کر کے انہیں دہشت گردوں کی فہرست فراہم کی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا جبکہ سیکورٹی کے پیش نظر پاک افغان سرحد بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی۔ اس حوالے سے ابھی دونوں ممالک میں تنائو موجود ہی تھا کہ پاکستان علاقے مہمند ایجنسی میں واقع تین سرحدی چوکیوں پر افغانستان سے جنگجوؤں کے حملے میں پانچ فوجی جوان شہید ہوگئے ہیں جبکہ پاک فوج کی جوابی فائرنگ سے دس سے زیادہ مشتبہ جنگجو بھی ہلاک ہوگئے۔اس واقعہ کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات انتہا کی حد تک کشید ہ ہوگئے ۔یہ کشیدگی ان دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
افغانستان اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے ۔کابل انتظامیہ جس کے قیادت اشرف غنی کر رہے ہیں اس قابل نظر نہیں آ رہی کہ وہ کابل سے باہر بھی اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں بلکہ کابل کی اندرونی صورتحال بھی کافی حد تک مخدوش نظر آ رہی ہے ۔طالبان کے بعد داعش بھی اس علاقے کو اپنا مرکز بنا رہی ہے ، شام اور عراق میں مختلف علاقوں میں داعش پر حملوں اور اس کے نتیجے میں پسائی کے بعد داعش کے لوگ افغانستان میں اکٹھے ہو رہے ہیں جہاں انہیں پناہ گاہیں میسر آ رہی ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ کابل انتظامیہ کا کمزور ہونا اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کا مختلف دہشت گر دگروہوں کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کے لیے انہیں سہولیات فراہم کرنا ہے۔داعش کی موجودگی کی تصدیق طالبان ذرائع بھی کر چکے ہیں ۔ طالبان کے ترجمان نے گزشتہ سال واضح کیا تھا کہ داعش افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے اور بڑی تعداد میں غیر ملکی افراد داعش میں شامل ہونے کے لیے مختلف علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی انتہا پسند نوجوانوں کی بڑی تعداد داعش میں شامل ہونے کے لیے افغانستان کا رخ کر رہی ہے۔
بھارت نے افغان شہریوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنے ملک میں آنے کے لیے غیر معمولی رعاتیں فراہم کر رکھی ہیں جس کے باعث داعش کا بھارت سے افراد لینا کوئی مسئلہ نہیں ۔بھارت کی سیکورٹی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کیونکہ گزشتہ دنوں بھارت سے نوجوانوں کے افغانستان جانے اور داعش میں شامل ہو کر عسکری تربیت لینے کی اطلاع ملتے ہی بھارتی سیکورٹی اداروں میں خاصی بے چینی دیکھنے میں آئی ہے۔اسی طرح گزشتہ دنوں لکھنو میں بھی ایک ان کائونٹر میں بھارت کے سیکورٹی اداروں نے داعش کے خلاف آپریشن کیا تھا جس میں ایک نوجوان کے ہلاک ہونے کی خبر تھی۔داعش کی افغانستان میں موجودگی افغانستان ، بھارت اور پاکستان تینوں کے لیے خطرناک ہے۔جن لوگوں کی سپرستی بھارت اور افغان خفیہ ادارے پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں وہ ان دونوں ممالک میں بھی کارروائیوں سے گریز نہیں کریں گے۔
جماعت الاحرار کے لوگوں کی بڑی تعداد داعش میں شامل ہو چکی ہے اور بظاہر یہ تنظیم پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ افغانستان اور بھارت کے اندر بھی انہی اداروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر سکتے ہیں ۔گزشتہ دنوں کابل ملٹری پر حملہ داعش کے لوگوں نے ہی کیا تھا جس میں 38 افراد کے جاں بحق ہونے اور 70سے زائد افراد کے زخمی ہوئے تھے ۔ طالبان نے واضح کر دیا تھا کہ انہوں نے یہ حملہ نہیں کیا اور بعد ازاں اس کی تحقیقات میں ایسے شواہد سامنے آئے کہ یہ حملہ داعش کی جانب سے کیا گیا تھا جبکہ داعش نے بھی اس کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ افغانستان میں داعش سے تربیت پانے والے بھارتی نوجوان یقینا بھارت میں اپنی کارروائیاں کریں گے جو بھارت کے لیے درد سر بنیں گی۔اس لیے داعش کی موجودگی پاکستان افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور کسی حد تک چین کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ اطلاعات بھی موجود ہیںکہ پاکستان کے فوجی ذرائع نے نئی امریکی انتظامیہ کے جنرلز کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر برطانیہ اور امریکہ نے داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو نہ روکا تو مستقبل میں پھر انہیں ابتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ افغانستان کے مغربی علاقوں میں غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں داعش نے اپنے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں ۔اس موقع پر ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا کہ روس اپنے عقب کو محفوظ کرنے کے لیے پھر سے کوئی کارروائی کر سکتا ہے اور یوں ماضی میں ہونے والے تمام اقدامات ضائع جا سکتے ہیں ۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مسلسل کام کیا ہے اور اپنی سرحد پرکئی ہزار جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اب دوبارہ سے بھارت اور افغانستان کی نااہلی اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے دہشت گردوں کی سرپرستی سے صورتحال پھر سے خراب ہو رہی ہے۔ پاک افغان سرحد پرایک لاکھ 80ہزار پاکستانی فوجی موجود ہیں جو اس وقت حالت جنگ میں ہیں ۔ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل نکلسن کا دعوٰ ی ہے کہ ان کی افواج افغان فوج کو تربیت دے رہی ہیں تاہم غیر ملکی مبصر کے مطابق افغان فوج میں میرٹ پر بھرتی کی بجائے قبائلی بنیادوں پر بھرتی کی جارہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ گدھے کو سرپٹ دوڑنا نہیں سکھایا جا سکتا۔
حالات جیسے بھی ہوں پاک افغان کشیدگی سے خطے کو کسی صورت فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان افغان جڑواں بھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھارت سے تعلقات میں اس حد تک فاصلہ ضرور رکھنا ہو گا کہ جہاں سے بھارت پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال نہ کرسکے ۔ بدقسمتی سے افغان پولیس اور نیشنل آرمی کے اہلکار اور خفیہ ایجنسی ڈی این ایس کا انحصار بھارت پر ذیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ افغان بھارت ایجنسیوں کا گٹھ جوڑکا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ۔ افغانستان کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغانستان میں بھارت کے ترقیاتی اورمعاشی معاون کردارسے پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ کابل کو اپنی معیشت کی ترقی کیلئے ہر ممکن مدد کی ضرورت ہے البتہ افغانستان میں بھارت کے فوجی یا سیکورٹی کردار پر تحفظات ہیںاور یہ تحفظات دور کرنا افغانستان کی ذمہ داری ہے۔