اسلام آباد (جیوڈیسک) پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنا ؤکے سبب دوطرفہ تجارت میں گزشتہ 3 برس کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے ،دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے قائم مشترکہ چیمبر آف کامرس نے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان عسکری ورکنگ گروپ کی تجویز میں اقتصادی یا معاشی کمیٹی کو بھی شامل کیا جائے۔
گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اعتماد کی بحالی میں مدد کیلئے مجوزہ ورکنگ گروپ میں اقتصادی کمیٹی کو شامل کیا جائے ،افغانستان ہمارے لیے بہت بڑی منڈی ہے اور پچھلے 3 سال سے ہماری افغانستان کو برآمدات کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں، ہماری ڈھائی سے 3ارب ڈالر کی دوطرفہ سالانہ تجارت ہوتی تھی جو کم ہو کر ایک ارب 80 کروڑ ڈالر تک رہ گئی ہے ، دوطرفہ تجارت میں ایک ارب ڈالر کی کمی بہت بڑی گراوٹ ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کے سبب افغانستان اپنی تجارت کیلئے ایران کا راستہ استعمال کر رہا ہے ،یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک سیاسی اور عسکری کشیدگی کے معاملات کو تجارت اور کاروباری روابط سے الگ رکھیں۔ پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے مطابق دونوں ملک تاریخی طور پر ایک دوسرے کے تجارتی شراکت دار رہے ہیں اور اگر تعلقات میں بہتری آتی ہے تو دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے سرکاری سطح پر بھی پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن قائم ہے لیکن نومبر 2015 کے بعد سے اس کمیشن کا کوئی اجلاس نہیں ہوا،گزشتہ ماہ اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر اور پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس رواں ماہ منعقد کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی، لیکن تاحال اس بارے میں کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے .
واضح رہے کہ اتوار کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں انسداد دہشت گردی سے متعلق پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان کے مابین ہونے والی چار ملکی کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور افغان فوج کے سربراہان کے درمیان ایک الگ ملاقات ہوئی تھی جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں پڑوسی ممالک کی افواج کے درمیان ورکنگ گروپ کی تشکیل کی تجویز دی تھی۔