اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کا ایک اجلاس آئندہ ہفتے کابل میں ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی سے متعلق معاملات پر اختلافات کے تناظر میں یہ رابطہ بظاہر بہت اہمیت کا حامل ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان نے طور خم سرحد کے ذریعے لوگوں کی آمد و رفت کو منظم بنانے کے لیے ایک گیٹ کی تعمیر شروع کی تھی جس پر افغانستان کو اعتراض ہے۔ اسی گیٹ کی تعمیر کے سبب دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دونوں جانب جانی نقصان بھی ہوا۔
اسی کشیدگی میں کمی پر بات چیت کے لیے 24 جون کو تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز کے درمیان ایک اہم ملاقات بھی ہوئی جس میں سرحدی معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
مجوزہ طریقہ کار یا میکنزم کی صدارت مشترکہ طور پر سرتاج عزیز اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کریں گے جب کہ اس میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیر بھی شامل ہوں گے۔ اس طریقہ کار کے تحت ایک تکنیکی ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔
جمعہ کو پاکستان کی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسی تکنیکی ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس 26 جولائی کو کابل میں ہو گا۔ بیان کے مطابق پاکستانی وفد کی قیادت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کریں گے جب کہ وفد میں دیگر متعلقہ وزارتوں اور شعبوں کے عہدیدار بھی شامل ہوں گے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ جہاں جہاں سرحدی چوکیاں قائم ہیں اُن کے مقام سے متعلق اگر کچھ مسائل ہیں تو اُن پر اس اجلاس میں بات ہو گی۔ تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ سرحد کی نگرانی دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔
’’تجارت کے لیے (سرحد کی نگرانی) بہت اہم ہے، کیوں کہ اسمگلنگ بھی انھی سرحدی راستوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔‘‘ اُدھر وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت ملک کی قومی سلامتی کمیٹی کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں بھی پاک افغان سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور زیر بحث آئے۔
اس اہم اجلاس میں ملک کی مسلح افواج کے سربراہان اور اہم وفاقی وزارء نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی نگرانی کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، کیوں کہ پاکستان کا موقف ہے یہ دنوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج ’ریزلیوٹ اسپورٹ مشن‘ کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی۔
اُس ملاقات میں بھی علاقائی سلامتی کی صورت حال کے علاوہ باہمی دلچسپی کے اُمور بشمول پاک افغان سرحد کی نگرانی کے طریقہ کار سے متعلق معاملات پر تبادلہ کیا گیا تھا۔