تحریر : قادر خان افغان پاکستان نے امریکہ انتظامیہ کی ڈومور پالیسی کے حوالے سے اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی پیدا کی ۔لیکن اس کے باوجود امریکی رویہ تبدیلی کی مثبت مستقل روش کا عندیہ دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ غیر ملکی شہریوں کی امریکی انٹیلی جنس کی موثر اطلاعات پر پاکستان کی جانب سے پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ محفوظ بازیابی پر امریکہ ششدر رہ گیا اور پاکستان کا شکریہ ادا اور لب و لہجہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا۔ امریکی صدر کے بے ربط بیانات اب عالمی بیانیہ میں سنجیدگی سے نہیں لئے جاتے ، اس لئے ڈو مور کی خواہش پوری ہونے کی خوشی کا اظہارکی ٹویٹ کو غیر سنجیدہ ہی لیا گیا ۔ لیکن اس کے ساتھ امریکی نائب صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو فون کرکے شکریہ ادا کرنے اور پاکستان کا دورہ قبول کرنے کے مثبت پیغامات اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ سب کچھ بُرا نہیں ہے۔ابھی شکریہ کی شرینی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ کے موقر جریدے نے شُرلی چھوڑ دی کہ اگر پاکستان کاروائی نہیں کرتا تو امریکہ نے ایبٹ آباد طرز کا آپریشن کرنے کے لئے ٹیمیں تیار رکھی ہوئی تھی۔امریکی جریدے کے بیان کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ امریکن سی آئی اے کے سربراہ نے پہلی بار براہ راست پاکستان پر الزام عائد کردیا کہ مغوی جوڑا پانچ سال سے پاکستان میں ہی تھا۔
اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر یہ سب ان کے علم میں تھا تو اب تک خاموش کیوں رہے؟۔پاکستان نے عوامی امنگوں کے برعکس اپنی کئی شہری امریکی مطالبات پر حوالے کئے ہیں ۔ رمزی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ایسے ڈھائی سو زائد پاکستانی شہری امریکہ کے حوالے کرنے کا اعتراف سابق پاکستانی صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کرچکے ہیں۔لازمی بات ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا فیصلہ تو رہا نہیں ہوگا ۔ علاوہ ازیں اسامہ بن لادن کے پاکستان میں موجودگی کے بعد ریاستی ادارے دوبارہ اسی مہمات کو دوہرانے کیلئے کوئی موقع فراہم نہیں کرسکتے کہ مغویوں کو پانچ سال تک پاکستان میں ہی رکھتے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور امریکی ذرائع ابلاغ اس بات کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں کہ مذکورہ کاروائی امریکہ کی دی جانے والی اطلاعات کی بنیاد پر ہی کی گئی تھی۔جس کا اعتراف امریکی صدر ، نائب صدر خود کرچکے ہیں۔پھر ان کے پروپیگنڈوں کا کیا مقاصد شکوک و عدم اعتماد سازی کا موجب کیوں بنائے جارہے ہیں۔
پاکستان نے عملی طور ایسے اقدامات شروع کردئیے ہیں جس سے عالمی رائے عامہ تبدیل ہورہی ہے ۔پاکستا ن کے مثبت اور سنجیدہ اقدامات کے نتیجے میں ماضی کے مقبول فیصلوں کے غیر مقبول نتائج کی روشنی میں حالیہ اقدامات میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی نمایاں نظر آرہی ہے۔امریکہ کی جانب سے پاک۔افغان سرحد پرڈورن حملوں کا مسلسل تسلسل میں اب وہ عناصر بھی نشانہ بننے لگے ہیں جو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں ، آرمی پبلک اسکول پشاور اور باچا خان یونیورسٹی کے ماسٹر مائنڈ عمر منصورکے ہلاک ہونے کی تصدیق کے ساتھ ہی کالعدم جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی افغانستان سرزمین پر ڈورن حملوں میں ہلاکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس شیئرنگ میں اس اَمر کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ امریکہ اب یکطرفہ کاروائی نہیں کریگا۔ پاکستان کے قریبی افغان سرحدی علاقوں میں حقانی گروپ پر امریکی حملوں کی تیزی اسی جانب اشارہ کرتے نظر آتی ہے۔دوسری جانب افغانستان میں امارات اسلامیہ افغانستان ( افغان طالبان) کی جانب سے افغان و امریکن سیکورٹی فورسز پر بڑے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان ان واقعات کی بھی بھرپور مذمت کرتا رہا ہے۔تاہم ان حوالوں کے ساتھ افغانستان میں موجود داعش کا فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کے منصوبہ بندی میں ایک بار پھر دو مساجد میں ایک کابل کے مغربی حصے اور دوسری مرکزی صوبے غور میں خودکش حملوںمیں نشانہ بنانا تشویش ناک ہے۔
اس سے قبل داعش اسی طرح کے فرقہ وارانہ حملوں میں ملوث ہونے کا اقرار کرچکی ہے ۔ امریکی سیکورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود فرقہ وارانہ بنیادوں پر اس قسم کے حملے افغانستان کے پائیدار امن کے راہ میں اہم رکائوٹ ہیں۔افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے حملوں کے جواب میں حکمت عملی نظر نہیں آرہی بلکہ افغان سیکورٹی فورسز میں بھرتی اہلکار اپنی جانیں بچانے کیلئے فوج چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ جبکہ ایسے لاتعداد کاغذی فوجی اس کے علاوہ ہیں جو گھوسٹ فوجی بن کر تنخواہ تو وصول کرتے ہیں لیکن عملی طور پر افغان سیکورٹی فورسز کا حصہ نہیں ہیں۔
پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل دشوار گزار باڑھ لگانے کا عمل شروع کیا ہوا ہے۔ پاکستان اب تک2200کلو میٹر میں سے 43کلومیٹر سے زائد حصے پر12 فٹ اونچی دو رویہ باڑ لگا چکا ہے جبکہ750میں سے 92 حفاظتی چیک پوسٹ تعمیر کرچکا ہے۔ جبکہ باڑ لگانے کا مہنگا ترین عمل پاکستان اپنے ذرائع سے مکمل کررہا ہے۔ دشوار گزار اور پہاڑی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کے سبب باڑ لگانے کا عمل انتہائی سست روئی کا شکار ہے۔ کیونکہ پہلے سڑک تعمیر کی جاتی ہے اس کے بعد باڑ لگائی جاتی ہے۔یعنی ایک کلو میٹر رقبے پر باڑ لگانے کے لئے سامان سے لڈے 30ٹرک استعمال ہوتے ہیں۔ 125 برس قبل ڈیورنڈ لائن کی تصوراتی سرحد اب عملی طور پر نظر آنے لگی ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کیلئے پاکستان کی اس دشوار گزار کوشش کومکمل ہونے میں اب بھی کئی سال لگیں گے۔پاکستان ، کابل حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ پر کئی مرتبہ افغانستان میں موجود دہشت گردتنظیموں کے موجودگی اور ان کے سربراہوں کے حوالے سے کاروائی کیلئے شواہد فراہم کرچکا ہے ، لیکن کابل حکومت نے کبھی اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ بھارت کے لئے استعمال ہونے والی ان دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی جاری رکھی۔
حالیہ دنوں میں امریکی ڈرون حملوں میں حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کے علاوہ اُن عناصر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی کاروائی کے ماسٹر مائنڈ تھے۔دو طرفہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے مثبت نتائج سامنے آنے کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پاؤمپے کا امریکی وزیر خارجہ کے جنوبی ایشیا کے پہلے باقاعدہ سرکاری دورے سے قبل بیان سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فارڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں خطاب کرتے ہوئے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پاؤمپے کے متنازعہ بیان سے ایسا تاثر سامنے آرہا ہے جیسے سی آئی اے کے مقاصد پورے نہیں ہوئے ہوں۔ اگر امریکی جریدے کی ٹیبل اسٹوری پر قیاس کر بھی لیا جائے کہ پاکستان کے عدم تعاون پر وہ ازخود کاروائی کرتے تو کیا اس بات کی ضمانت تھی کہ مغوی زندہ بچ جاتے۔ جس طرح کینڈین جوڑے نے امریکی جہاز میں جانے سے انکار کیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ سی آئی اے کے مقاصد کچھ اور تھے جسے پاکستانی فوج نے ناکام بنادیا۔اسی طرح کابل حکومت کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے خلاف کاروائی میں اہم ہلاکتوں پر سی آئی اے چیف کی خاموشی ظاہر کررہی ہے کہ جیسے امریکہ کی سی آئی اے کے ان دہشت گرد تنظیموں سے رابطے تھے۔پاکستان واضح کہہ چکا تھا کہ اگر امریکہ دہشت گردوں کی نشان دہی کرتا ہے تو پاک فورسز کسی جوائنٹ آپریشن کے بجائے خود کاروائی کرے گی۔
اس لئے سی آئی اے کا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی پالیسی پر ابہام پیدا کرنا یقین پیدا کرتا ہے کہ امریکہ کی ایجنسی پاکستان۔افغانستان میں امن کے قیام کے بجائے کسی دوسرے ایجنڈے پر گامزن ہے اور سی آئی اے کے منفی کردار سے متعلق ماضی میں جتنے تحفظات بیان کئے جاتے رہے ہیںاس میں مبالغے سے زیادہ زمینی حقائق ہیں۔پاکستان خطے میں قیام امن کیلئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں اپنے پس پردہ مفاد کو پیش نظر رکھا جس سے دونوں جانب عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی۔ خطے میں پائیدار امن کیلئے امریکہ کو اعتماد کی فضا پیدا کرنا اشد ناگزیر ہے۔امریکہ کو اپنی تارٰک کی مہنگی ترین بے معنی جنگ سے نکلنے کیلئے پاکستان کی مدد درکار رہے گی۔امریکا کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات و پالیسی میں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ باہمی اعتماد کی سطح پر دونوں ممالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ باہمی تعلقات میں نظر ثانی کی جائے۔