تحریر : اسلم انجم قریشی کہ امریکہ نے دھوکہ دیا امریکی عوام اس بات پر غور کریں کہ ہم پر امن قوم ہیں اور ہمارے عزم پر پاک فوج کے سربراہ سپہ سالار چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں بیان کردیا کہ امریکہ سے امداد نہیں مانگیں گے واشنگٹن کی امداد کے بغیر اپنے قومی مفاد کے مطابق دہشتگردی کے خلاف مخلصانہ کوششیں جاری رکھیں گے ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ حالیہ امریکی بیانات کے نتیجے میں پاکستانی قوم سمجھتی ہے کہ کئی دہائیوں کے تعاون کے باوجود اسے امریکہ کی جانب سے دھوکہ دیا جارہا ہے اسی طرح متفقہ قومی ردعمل ایسے ہی جذبات کا مظہر ہے جنرل باجوہ نے کہا کہ امریکی امداد کے بغیر انسداد دہشتگردی کیلئے اپنی مخلصانہ کوششیں جاری رکھیں گے۔
دہشتگردی کو دوسرے سٹیک ہولڈرز سے ملکر منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پر عزم ہیں خطے میں طاقت کی کھینچا تانی سے پاکستان کو شدید نقصان اٹھانا پڑا جنرل باجوہ نے کہا کہ افغان شہریوں کی پاکستان میں سرگرمیوں سے متعلق امریکی خدشات سے پوری طرح آگاہ ہیں اس حوالے سے ردالفساد کے ذریعے ہر رنگ و نسل کے دہشت گردوں کیخلاف کاروائی جاری ہے انہوں نے اس حوالے سے افغان مہاجرین کی واپسی بھی ضروری ہے آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد دونوں ممالک میں جاری کشیدگی کے اس ماحول میں امریکی سینٹ کام(مرکزی کمان )سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور سینیٹر نے سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کیے ان ٹیلیفونک رابطوں کے درمیان پاک امریکہ سیکورٹی تعاون سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا جنرل جوزف ایل ووٹل نے سربراہ پاک فوج کو سیکورٹی تعاون اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے متعلق فیصلے سے آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ دہشگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک میں جاری کشیدگی عارضی ہوگی سربراہ امریکی سنٹرل کمانڈ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آگاہ کیا کہ پاکستان کے اندر کسی یکطرفہ کاروائی کے بارے میں نہیں سوچ رہے لیکن ان افغان شہریوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کا تعاون درکار ہے جو واشنگٹن کے خیال میں افغانستان کیخلاف پاکستانی سر زمین استعمال کرتے ہیں سربراہ پاک فوج نے امریکی جنرل کو بتایا ہے کہ پاکستان یکطرفہ طور پر سرحدی کنٹرول کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے لیکن اگر حقیقت میں افغانستان پاکستان سے متاثر ہورہا ہے تو پھر بارڈر مینجمنٹ اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان امریکی امداد کی بحالی کے لیئے نہیں کہے گا لیکن خطے میں امن وا ستحکام کی خاطر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اپنی خدمات ، قربانیوں اور غیر متزل عزم طریقے سے اعتراف چاہتا ہے جنرل باجوہ نے کہا پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے رجحان کے باوجود افغانستان میں امن کے تمام اقدامات کی حمایت کرتے رہیںگے کیو نکہ پر امن افغانستان ہی خطے کے دیر پا امن و استحکام کا واحد راستہ ہے ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی جنرل ن جوزف نے افغانستان مہاجرین کی آڑ میں امن دشمن سرگرمیاں روکنے اور پاکستان کی میزبانی کے جذبے کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے اٹھائے گئے بعض اقدامات کا اعتراف کیا امریکی جنرل نے باہمی مفاد کے حصول کے لیئے مشترکہ سرگرمیوں پر بھی اتفاق کیا گیا ادھر امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر برائے کمیونٹی ساجد تارڑ نے کہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے انہوں نے ایک وڈیو بیان میں کہا پاکستانی نژاد کا کہنا تھا کہ 70 سال تعلقات ایک مہینے یا ایک ہفتے میں ختم نہیں ہوسکتے حساس معاملات پر پاکستانی سیاست دان انتشار کے بجائے احتیاط سے کام لیں کچھ چھوٹے سیاست دان معاملے پر دکان چمکا رہے ہیں ۔ امریکی صدر کے مشیر نے کہا دونوں حکومتوں نے مختلف آپشنز پر غور کیا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کی امداد معطل کی گئی ہے منسوخ نہیں۔ ٹرمپ کے مشیر آپ کی خدمت میں عرض ہے کے پاکستا نی قوم کے ا حساس اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے جیسی قسم کی باتیں ہمارے لیئے ناقابل برداشت ہیں اس ضمن میں آخر کار آرمی چیف نے کہہ دیا ہے کہ امریکہ سے امداد نہیں مانگیں گے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہماری خدمات اور قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے جلد مثبت پیشرفت کا امکان ایک ذرائع نے ظاہر کیا جس کے مطابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ سے پیدا شدہ صورتحال کے ازالے کے لئے امریکہ کے ساتھ ہر سطح پر بیک چینل رابطوں کا عمل جاری ہے گزشتہ روز امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون ان رابطوں کے سلسلے کی پہلی کڑی بتایا گیا ہے ذرائع کا کہنا ہے پاکستان کے خلاف ٹویٹ یا تعلقات میں خرابی کے حوالے سے امریکی صدر کو خود امریکہ کے اندر بھی حمایت حاصل نہیں اور امریکہ کے اکثر با اثر حلقے امریکی حکومت پر اس پالیسی پر نظر ثانی کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں ِاِدھر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو آزمالے لیکن وہ ہمیں آزمانے کا نتیجہ خود دیکھ گا۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے بیان کو بچکانہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا انہوں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں آرمی چیف ایک ذمہ دارانہ تقریر ہوتی ہے یہ فور اسٹار رینگ ہے جو زندگی بھر کے تجربے اور پختگی کے بعد حاصل ہوتا ہے بھارت کی جانب سے مہم جوئی کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم قابل اعتماد جوہری صلاحیت رکھتے ہیں جو خاص طور پر مشرق کی سے درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے ہے ہم جوہری ہتھیار کو اولین انتخاب نہیں بلکہ دفاعی و مزاحمتی ہتھیار سمجھتے ہیں بھارت کو جو چیز جنگ سے روک رہی ہے وہ ہماری قابل بھروسہ جوہری صلاحیت ہی ہے کیوں کہ دو جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کے درمیان جنگ کی گنجائش موجود نہیں۔ اب روایتی جنگ ممکن نہیں رہی میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان کے جوہری طاقت بننے کے بعد بھارت روایتی طریقوں سے پاکستان پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتا تو اب تک ایسا کرچکا ہوتا انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ہمیں نشانہ بنا رہا ہے لیکن وہ ریاستی دہشتگردی میں بھی ناکام ہوچکا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم پروفیشنل آرمی ، ذمہ دار جوہری ریاست اور ایک طاقتور قوم ہیں بھارت کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے ہم بھارتی مہم جوئی کا جواب دیں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارتی آرمی چیف نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ایک فریب ہے۔
اس کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ نے دنیا نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ایک علاقائی نہیں عالمی مسئلہ ہے جس میں امریکہ کا اپنا کردار ہے اور اپنے خطہ کے حوالہ سے ہمارا اپنا کردار ہے پاکستان نے اپنی سرزمین کو دہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے اپنا ممکنہ کردار ادا کیا اور بہت حد تک ہم اس میں کامیاب رہے ہیں بالآ خر امریکہ کو پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا پڑے گا امریکہ پاکستان تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مفاد کو دیکھنا ہے اور اپنے مفاد کو محفوظ بنانا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کسی لالچ میں نہیں لڑی اس کے اثرات ہماری معیشت اور معاشرت پر پڑ رہے تھے۔ ہمیں کسی امداد کی نہیں اپنے کردار کی تحسین کی ضرورت ہے جنرل ناصر جنجوعہ نے مزید کہا کہ افغانستان کے معاملات کیوں بگڑے وہاں ہم تو نہیں تھے وہاں امن کیونکر قائم نہیں ہوا ۔ ذمہ دار ہم تو نہیں۔ ہاں ہم اپنی سرزمین کے ذمہ دار ہیں اور ہم نے دہشتگردی کے جن کو قابو کیا۔