شمالی وزیر ستان کے علاقے گربز میں سرحد پار سے بزدلانہ حملے میں چھ فوجی جوان جبکہ بلوچستان میں ہوشاب اورتربت کے درمیانی علاقے میں گومبنگ آپریشن کے دوران ایف سی بلوچستان پر حملے سے کیپٹن سمیت چار جوان شہید ہوئے۔ پاکستانی عوام شہدا کے شہادت پانے کے اعزاز پر ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے جوانوں کی شہادتوں پر شدید مذمت بھی کرتے ہیں۔ ایک اہم حفاظتی اقدام کے طور پرپاکستان نے نوسر باز افغانیوں کے خلاف قانونی اقدامات اٹھائے ہیں جنہیں افغان پولیس کی سرپرستی حاصل تھی تاہم پاکستان نے خواتین ، بزرگ، بچوں، کاروباری حضرات اور بیمار افغانیوں کے لئے ویزے کے اجرا ء میںپابندیاں عائد نہ کر کے ایک بار پھر فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔افغانستان میں جیسے جیسے جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوتی جارہی ہے ، امن دشمن عناصر اپنے شرپسند مقاصد کے تحت جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپنے سازشوں میں اضافہ کردیتے ہیں ۔ خاص طور پر وزیرستان بلخصوص قبائلی سرحدوںمیں سیکورٹی پر معمور اہلکاروں پر سرحد پار سے حملے کرنا ملک دشمنوں نے معمول کی کاروائی بنا لیا ہے ۔ جس طرح بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے سے باز نہیں آتا ، اسی طرح سرحد پار سے سیکورٹی اہلکاروں پر حملے بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے کہ سرحدوں پر حفاظت کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دیتے ہیں اور پاکستانی عوام ان شرپسند و دہشت گردوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسی لعنت اور مذموم بین الاقوامی کاروبار بن چکا ہے جس کی وجہ سے سہولت کاروں کی بڑی تعداد اب بھی قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں آنے سے بچے ہوئے ہیں۔ اس کی اہم وجہ عوام کی جانب سے لاپرواہی یا خوف بھی قرار دیاجاسکتاہے کہ مشکوک سرگرمیوں میں مصروف شر پسند عناصر کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت آگاہ نہیں کیا جاتا۔ذاتی رائے میں سیکورٹی ایجنسیوں کی مدد عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم مشکلات و عدم تعاون کے باوجود دہشت گردی کو سیکورٹی فورسز نے انتہائی محدود جگہ پر محصور کردیا گیا ہے ۔ جہاں وطن عزیز کی حفاظت کے لئے ڈیوٹی پر معمور سیکورٹی اہلکار اپنی جانوں کی قیمتی قربانیاں دے رہے ہیں۔
سیکورٹی اداروں کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں، عالمی برادری بھی اب معترف ہے کہ جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جہاد کیا اور بے مثال کامیابی حاصل کی، وہ سیکورٹی اداروں کے صلاحیتوں کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔گزشتہ دنوں وزیراعظم کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی امریکا کے سرکاری دورے پر گئے ۔ جہاں انہیں پیشہ وارانہ مکمل پروکوٹول دیا گیا ۔ اعلیٰ امریکی قیادت ، امریکی عسکری حکام نے پرجوش استقبال کیا ۔ انہیں 21توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ۔ امریکی سول و عسکری حکام کے ساتھ پاکستانی مسلح قیادت کے ساتھ گفت و شنید نے دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا کیا ۔ دورہ امریکا میں پاکستانی فوجی قیادت کا کردار بھرپور قوت کے ساتھ نظر آیا اور برابری کی سطح پر وفود کی ملاقاتیں مسلح افواج کی مرہون منت کی وجہ سے ممکن ہوپایا ۔امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان کے ایف 16طیاروں کیلئے سپورٹ پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ایف 16طیاروں کی تکنیکی سپورٹ فراہم کرنے کیلئے 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر (20ارب روپے) منظور کریگا۔سرکاری اعلان میں کہا گیا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان کے ایف 16 پروگرام میں تعاون جاری رکھنے کے لیے فورین ملٹری سیلز (ایف ایم ایس) یا غیر ملکی فوجی سامان کی فروخت منظور کرنیکا ارادہ کیا ہے جس کی لاگت 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہوگی۔امریکی دفاعی سکیورٹی کو آپریشن ایجنسی نے ضروری دستاویزات فراہم کرتے ہوئے کانگریس کو اس ممکنہ فروخت کے بارے میں اطلاع دے دی ہے۔ یقینی طور پر یہ پاکستان کا وہ حق ہے جس کا قرض پہلے ہی پاکستان ادا کرچکا تھا ، امریکا اگر اپنے رویئے میں تبدیلی لارہا ہے تو پاکستان بھی امن کے لئے خطے میں پہلے سے زیادہ بھرپور کردار ادا کرنے میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہاںایسے عناصر کا ذکر کئے جانا ضروری ہے جن کا کام مسلح افواج کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا کر نوجوانوں کے اذہان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں ہوں یا مذہبی جماعتیں یا پھر کوئی بھی ہو ، جب بھی پاک فوج کے جوان مادر وطن کے لئے شہید ہوتے ہیں تو خراج عقیدت کے ساتھ دہشت گردوں کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ لیکن بیشتر ایسے عناصروں کا کردار شرمناک ہے جو سوشل میڈیا میں مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے ۔ واٹس ایپ گروپس میں بھی مسلح افواج سمیت ریاستی اداروں کے خلاف جس قسم کی روش اختیار کی جاتی ہے کہ اگر اس پر کچھ تبصرہ کردیا جائے تو دشنام طرازی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہے ، اگر کسی آمر سے کسی کو کوئی اختلاف ہے تو اُس فرد واحد کو تنقید بنایا جائے پوری مسلح افواج کو اپنی بدکلامی سے شکار کیوں بنایا جاتا ہے۔اچھے بُرے سب جگہ ہوتے ہیں سب اداروں میں ہوتے ہیں ، تمام شعبہ جات میں ہوتے ہیں لیکن جب ریاستی اداروں ، خاص کر مسلح افواج کے خلاف سوچی سمجھی سازش کے تحت آسمان پر تھوکا جائے گا تو وہ تھوک اُس کے چہرے پر ہی گرے گا ۔ تنخواہ، پنشن یا مراعات کسی بھی قیمتی جان کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ۔ خاص طور پر پاک افواج میں جب جوان سے لیکر کمیشنڈ افسر مسلح افواج کا حصہ بنتا ہے تو اس کے دل ودماغ میں یہ بات واثق ہوتی ہے کہ وہ شہادت کی خواہش پر مسلح افواج کا حصہ بن رہا ہے۔ دن رات جنگ کے سائے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کی سوچ کا محور شوق شہادت و جذبہ حب الوطنی میں مادر وطن کی حفاظت ہوتا ہے۔ لیکن تف ہے اُن لوگوں پر جو فروعی مقاصد کے لئے مسلح افواج کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے دشمنوں کے سازشی ایجنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا یا واٹس ایپ گروپس میں مسلح افواج پر الزامات و دشنامی کرکے سمجھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا بہادر کوئی نہیں ہے۔ آفرین ہے اُن والدین بھائی بہنوں پر جو اپنے پیاروں کو موت کی آغوش میں اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی محبت میں میدان خارِزار میں بھیجتے ہیں۔کیا کوئی ان کے درد کو سمجھ سکتا ہے کہ جب ان شہدا کے جسد خاکی اپنوں کے پاس آتے ہیں تو والدین ، بھائی بہن اور اولاد کے د ل پر کیا گذرتی ہے۔ اگر وہ محسوس نہیں کرتے تو اپنے سب سے پیارے کے جسم کے کسی بھی حصے کو ہلکی سی خراش لگا کر اُس کے رونے پر تالی بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کریں ۔ یقینی طور پر کوئی والدین اپنے بچے کے جسم پر خراش تک نہیں آنے دیں گے اُس کی تکلیف پر بلک اٹھیں گے اس کے راستے میں آنے والے کسی بھی طاقت ور سے ناتوانی کے باوجود جھپٹ پڑیں گے۔
مسلح افواج ہماری ریاست کا اہم ستو ن ہے ، اسے سیاسی مخالفتوں میں اپنی انَا کی بھینٹ مت چڑھائیں ، ملک دشمن عناصر کو پنپنے نہ دیں ۔ چاہے وہ سرحد پار کا ہو یا آپ کے گلی محلے کا ، اگروہ ہمارے ملک وقوم کا دشمن ہے تو آپ کا ہمارا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمیں پاکستان مخالف نظریئے کے خلاف اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دنیا بھر میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہورہا ہے تو اس میں ہماری مسلح افواج کا نمایاں کردار ہے ،بیشتر سیاسی کرداروں نے ہمیشہ مایوس کیا ہے ، ان کی کرپشن و لوٹ مار کی داستانیں سن سن کر تھک گئے ہیں ، جو بھی حکومت میں ہوتا ہے وہ خود کو فرشتہ سمجھتا ہے ، جب اس کی مخالف جماعت برسر اقتدار میں آتی ہے تو سارے پول پٹی کھل کر سامنے آتے ہیں ، اس گندے تالاب میں کنول کون ہے ، اس کا فیصلہ اپنی ضمیر کی عدالت میں کیجئے۔ کسی شخصیت کو ناپسند کرتے ہوں تو اخلاقی دائرے میں رہ کر تعمیری تنقید کیجئے ، کوئی مقدس گائے نہیں ، بس اپنے لب و لہجے کو درست کرلیں تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے۔دشنام طرازی کا وتیرہ رکھنا حب الوطنی نہیں بلکہ ملک دشمنی کے مترادف ہے۔