پاک فوج نے ہر لحاظ سے سرحدوں پر پاکستان کا دفاع کیا توملک کے اندر پاکستانی سائنسدانوں نے ایٹم بمب کی تیاری کے لئے دن رات کا م کرپا کستان کوایٹمی طاقت بنا دیااور بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا کہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں پاکستان کا ایٹمی پر وگرام اور اس کا معیا ر بھارت سے کہیں زیادہ طاقتور اور معیاری ہے28 مئی 1998 کو تین بج کر سولہ منٹ پر جب محمد ارشد نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے بٹن دبایا تو تیس سیکنڈ میں پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہو گیا 28 مئی پاکستان کی قوم کی سربلندی کا دن تھا یہ کامیابی پاکستان کو ایک دن میں نہیں ملی بلکہ اس کےپیچھے کئی سالوں کی محنت شامل ہے
پاکستان کا ایٹمی پر وگر ام ہر حال میں جاری رہا ملک میں سیاسی تبدیلیاں بھی ہو ئیں اور مارشل لاءبھی لگائے گئے پر یہ پروگر ام اپنا سفر طے کر تا رہا ہر آنے والی حکومت اور حکمر ان نے اس میں اپنا حصہ شامل کیا 1965 میں ذوالفقار علی خان بھٹو نے ایک برطانوی اخبار مانچسٹر گارجیئن کو انٹر ویودیتے ہو ئے کہا تھا اگر ہند وستان ایٹم بمب بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں بنا سکتے ہیں ہم گھاس کھا لیں گے بھو کے رہے لیں گے پر اپنا ایٹم بمب ضرور بنا ئیں گے تاہم پاکستان نے ایٹم برائے امن کے نام سے ابتدائی طو ر پر 1955 میں پر گرام شروع کر دیا تھا جس کے سر بر اہ ڈاکٹر نذیر احمد خان تھے دراصل یہ تھی 28مئی کے دن کی کامیابی کا ابتداءاس کے بعد 1960 میںڈاکٹر عشرت عثما نی کو پاکستان اٹامک انر جی کمیشن کا چیر مین اور نو بل انعا م یا فتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو صدر کا مشیر برائے سائنسی امو ر مقر ر کر دیا گیا۔
اس دوران پاکستان کے پاس ایٹمی سائنسدانوں اور ماہر ین کی کمی تھی ڈاکٹر عشرت عثما نی نے حکو مت کوتجو یز پیش کی جس کے مطابق پاکستان کے ذہین نو جو انوں کو 1960 سے 1976 تک بیرون ملک تربیت کر وائی گئی جبکہ اسی دوران پاکستان ایٹمی قوت بننے کے مر احل میں تھا‘ تو بھارت نے 1974 میں مسکراتا بدھا Buddha samil کے نام سے پو کھر ان راجستان ایٹمی دھماکا کر دیا بھارت کے ایٹمی تجربے کے جو اب میں پاکستان نے این بی ٹی معاہد ے پر دستخط کر نے سے انکار کر دیا 1974 میں کہو ٹہ پر وجیکٹ کے نا م سے سنٹری فیوج تکنیک کے ذریعے یورنیم کی افسردگی کے لئے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنا کام شروع کر دیا اور 1975 میںپلانو ٹنیم اور یورنیم کا کان کنیکے حو الے سے ایک پلانٹ UF16 گیس میں تبدیل کر نے کا لگا لیا 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کہو ٹہ کے منصوبے کا سربر اہ بنا دیا گیا اور سنٹر ی فیو ج کو ڈاکٹر جی ڈی عالم نے 1978 میں کا میا بی سے چلا لیا 1983 میں سائنسدانوں نے پہلا کولڈ ٹیسٹ کا کا میا ب تجر بہ کیا اور 1983 سے 1990 تک کل 24 کو لڈ ٹےسٹ کےے گئے۔
جب بھارت نے 11 مئی اور پھر 13 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کےے تو اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپا ئی نے ان ایٹمی دھما کوں کے تجر بات کو کا میا ب ہو نے کا اعلا ن ٹی وی اور ریڈیو پر خطاب میں کیا اس تناظر میں پا کستا ن نے بھارت کو بھر پور جو ا ب دینے کی تیاری تو پہلے کر رکھی تھی پر اس کو عملی جا معہ پہنانے کے لئے 19مئی 1998کو 410 سا ئنسدانوں پر مشتمل ایک ٹیم چا غی روانہ کی جنہوں نے آخری مر احل پر کا م صرف چند دو نوں میں مکمل کر لیا دوسری طرف وزیر اعظم میاں محمد نو از شریف جو اس وقت وزیر اعظم تھے کو عالمی طاقتیں مسلسل دباو ڈال رہی تھیں جن میں امر یکہ بر طا نیہ اور جا پان شامل تھے کے آپ ایٹمی دھما کے نہ کر یں بلکہ 27 مئی کی شب امر یکی صدر بل کلنٹن نے میاں محمد نو از شر یف کے ساتھ 25 منٹ ٹیلی فو نک بات کی اور ہر طر ح سے دباو ¿ اور بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا کہ آپ ایٹمی تجر بات نہ کر یں میاں محمد نو از شر یف پر قوم کی طر ف سے دبا و ¿ تھا‘ پاک فوج نے سیاسی قیادت کو کہا کہ ہم ہر طرح سے ملک کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں اور دشمن نے کوئی حرکت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جا ئے گا ‘
اس وقت مجید نظامی صاحب نے اپنے اداریہ میں تحر یر کیا میاں صاحب ایٹمی دھماکے کر دیں نہیں تو قو م آپ کا دھما کا کر دے گی آخر 28 مئی 1998 کووہ گھڑی آن پہنچی اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو منہ توڑ جو اب دے دیا اور ساتھ ہی پوری دنیا پر واضع کر دیا کہ پاکستان کو ئی کمزور ملک نہیں ہے دھماکوں کی کامیا بی کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی خدمات پر صدارتی ایو رڈ دیا گیا تو ساتھ ہی ایک صدارتی ایو رڈ مجید نظامی صاحب کو بھی دیا گیا کیوں کہ انہوں نے ایک اہم قومی نقطے کو اپنے اداریہ میں اٹھا یا تھا۔