پاک فوج اور چسکے

Pak Army

Pak Army

تحریر : روہیل اکبر
اسلام آباد میں دھرنہ پر بیٹھے ہوئے اسلام کے شیدائیوں کو جس احسن طریقے سے پاک فوج نے اٹھایا اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے اتنی ہی کم ہے اور خود علامہ خادم حسین رضوی نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اسکا ذکر کیا کہ فوج کی مداخلت سے ملک ایک بہت بڑی ہنگامہ آرائی اور خون ریزی سے بچ گیا بے شک ایسا ہی ہوا مگر دھرنہ ختم ہوتے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ایک تنقیدی بیان سامنے آجاتا ہے عدالتوں کا ہم احترام کرتے ہیں تاہم یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ فاضل جج صاحب کو ناراضگی کس بات پر ہوئی، آپریشن سے لاشیں نہیں گریں، یا انہیں کریڈٹ نہیں مل سکا؟اگر دھرنا ختم ہوگیا، فساد ٹل گیا تو اچھا ہوا یا برا؟ ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں کہ مجرم ہتھیار ڈالنے سے پہلے پولیس کے بجائے فوج کے آگے سرنڈر کرنے کی شرط لگاتے ہیں کہ وہاں انہیں پولیس مقابلے میں مارے جانے کا خدشہ نہیں ہوتا یا مختلف احتجاج میں مظاہرین گارنٹر کے طور پر فوج یا کبھی عدلیہ کو بھی ثالث بنانے کی بات کرتے ہیں۔

اس بار کون سی انہونی ہوگئی؟ کیا پولیس کو دوبارہ آپریشن کے لئے کہا جاتا یا پھر فوج کو گولیاں چلانے کا حکم دیا جاتا اور لاشیں گرتیں، تب ٹھیک ہوتا؟ سمجھ سے باہر ہے کہ پرامن طریقے سے یہ مسئلہ سلجھ گیا تو پھر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ فوج اگر چاہتی تو گولی چلا سکتی تھی مگر اس سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی، اگر نا بھی ہوتی تو بھی فوج اور عوام کے تعلقات میں خلا پیدا ہو جاتاجسٹس شوکت صدیقی کو اور کوئی مسئلہ نہیں سوائے اس کے کہ دھرنے میں ان کے کردار پہ تنقید کی گئی کیایہ خود غرضی ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی عناد کی بنا پر یہ سوچنا ترک کر دے کہ ان مذاکرات کا ملک کو کتنا فائدہ ہو ا بین الاقوامی سطح پہ میڈیا یہ کہہ رہا تھا کہ پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہو چکے ہیں اس کے علاوہ پوری دنیا میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پہ پیش کیا جا رہا تھا جس کے مرکز میں چند ہزار لوگ دھرنہ دیے بیٹھے تھے اور حکومت انہیں اٹھانے میں ناکام ہو چکی تھی قطع نظر اس بات کے یہ دھرنا درست تھا۔

عالمی میڈیا ان بے ضرر داڑھی والے پاکستانیوں کو دہشت گرد بنا بنا کے دکھا رہا تھا ایک ایسی صورتحال میں جب پوری دنیا میں پاکستان کا تماشہ بن رہا تھا اور اندرونی طور پر خانہ جنگی کا خدشہ تھا پاکستان آرمی آگے آئی اور حالات کو انتہائی نرمی سے سنبھالا دے دیاحکومت پہ واضح کیا کہ طاقت کا استعمال آپ نے کر لیا بہتر ہے بات چیت سے مسئلہ حل کریں فوج کے پاس تین آپشن تھے ،نمبر ایک مارشل لاء لگا دے،نمبر دو دھرنے والوں کو تشدد کے زریعے ہٹا دے اور نمبر تین مذاکرات کر کے ہٹا دے آرٹیکل 245 کے بعد فوج جو چاہے کر سکتی تھی مگر فوج نے صرف مذاکرات کیے کیا فوج کو اتنے سنگین حالات پر اتنی کامیابی کے ساتھ قابو پا لینے کی وجہ سے ہدف تنقید بنایا جارہا ہے ؟ فوج اور دھرنہ قائدین میں کامیاب مذاکرات کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کے حمایتی صحافیوں نے پاکستان اور فوج کی تعریف کی کہ ریاست نے فوج کی مدد سے اتنے بڑے بحران پر قابو پا لیا وہ بھی بنا خون بہائے جبکہ اگلے ہی روز وزیر داخلہ صاحب فرما رہے تھے کہ آپریشن میری اجازت پہ نہیں ہوا تھا بلکہ ضلعی انتظامیہ نے اپنی مرضی سے کیایہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اس سے پورے ملک کے میڈیا میں ایک بھونچال آ جانا چاہیے تھایعنی ایک ڈپٹی کمشنر نے وزیر داخلہ کو بائی پاس کرتے ہوئے ملکی سلامتی داؤ پر لگا دی لیکن نا تو میڈیا میں کوئی زلزلہ آیا اور نا ہی جسٹس شوکت صدیقی نے اس پہ بات کی ہاں فوج پہ ہاتھ صاف کرنا ہر بندہ اور ہر ادارہ اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے کیونکہ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے بلکہ ہر طرف ایک ہجوم ہے کبھی کسی کی حمایت میں تو کبھی کسی کی اور جہاں سے کوئی مفاد نظر آیا اسی طرف کو دوڑ لگا دی دھرنہ سے پہلے ہر وقت ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے یک دم ایسے غائب ہوئے کہ فواد چوہدری کو یہ کہنا پڑگیا کہ وہ اب باہر نکل آئیں دھرنہ ختم ہوگیا۔

اگر خدانخواستہ ملک میں مارشل لا لگ جاتا تو پھر یہ سب اٹھا اٹھا کر بولنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے مارشل لاء کی بات ہوئی تو کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت تو دل وجاں سے سیاسی شہادت چاہ رہی ہے کچھ دن پہلے اپنے دفتر میں دوستوں ندیم بٹ ،میاں ببلی ،جنید عزیز میاں ،کاشف اور زبیر سندھوکے ہمراہ نیٹ پر ایک سٹیج ڈرامہ دیکھا جسمیں افتخار ٹھاکر بات بات پر بہانے سے طارق ٹیڈی کی چمی لے لیتا ہے۔پھر کچھ دیر تک جب ٹھاکر نے ایسا نا کیا تو طارق ٹیڈی نے خود گال اگے بڑھا کر یاد کروایا کہ چمی۔۔ تو اس پر افتخار ٹھاکر نے ایک جملہ کہا جو مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلکل پورا اترتا ہے کہ ” ناں کاکا ناں، تینوں پے گئے نیں چسکے ”میاں نواز شریف کو اپنے دونوں سابقہ ادوار میں فوج سے ٹھڈے کھا کر ایسا چسکا پڑا کہ 2013 سے اب تک مسلسل فوج کو مائل کرنے کی کوشش میں ہیں مگر اس طرف سے کوئی ریسپانس نہیں آیا۔ڈان لیکس کے ذریعے فوج کو انتہائی متنازعہ داغ لگا کر متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ مارشل لاء لگا کر ن لیگ کی بری کارکردگی کو چھپایا جا سکے مگر فوج نے کمال بردباری سے خود کو بچائے رکھااسی طرح پانامہ کیس میں سزا ہونے پر سارا الزام فوج پر لگا کر اپنے چسکے کی تسکین کے لیے فوج کو مارشل لاء کی دعوت دی مگر پھر وہاں سے انکار ہی ملا۔ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کے خلاف حالیہ دھرنے کو حکومت چاہتی تو ایک دن میں ختم کر سکتی تھی کیونکہ ان کا مطالبہ بہت سادہ تھا کہ زاہد حامد فوری استعفی دے مگر حکومت نے ایک بار پھر اپنی ڈھٹائی برقرار رکھتے ہوئے معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا کہ آخرکار دھرنے کے 21ویں دن صبح صبح آپریشن شروع کر دیاگیاپولیس کی ناکامی کے بعد کمال ہوشیاری سے فوج کو مدد کے لیے طلب کر کے فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف مختلف شہروں میں ہنگاموں کے بعد میاں صاب مکمل پرامید تھے کہ اس بار فوج انکار نہیں کر پائے گی اور مارشل لاء لگے ہی لگے مگر آخر کا ر آرمی کے مشاورتی اجلاس کے بعد آرمی چیف نے وزیر اعظم کو فون کر کے تشدد سے گریز کا مشورہ دیا اور دھرنے سے بات چیت کے ذریعے نپٹنے پر زور دیا۔

دوسرے لفظوں میں باجوہ صاحب نے کہا کہ”ناں کاکا ناں، تینوں پے گئے نیں چسکے ”اور یوں ملک ایک بار پھر مارشل لاء سے بچ گیا مگر ایک بات اور جسکی سمجھ نہیں آئی جس حکومت سے کچھ گستاخ پیج بند نہیں ہو پائے تھے اس حکومت نے فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب منٹوں میں بند کر دی آخر میں بتا دوں کہ یہ سب سمجھنے کی باتیں ہیں اب حکومت کو مدت پوری کرنا ہی پڑے گی اور اسکی قسمت کا فیصلہ عوام ہی کرینگے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200