تحریر : ممتاز حیدر افواج پاکستان قوم و ملک کا سرمایہ افتخار ہیں ۔جب بھی وطن عزیز پر مشکل وقت آن پڑاتو وردی والوں نے ہی ملک کو مشکل گھڑی سے نکالا،سیلاب ہو یا زلزلہ،کسی بھی قدرتی آفت میں یا ایمرجنسی میں پاکستان کے طول و عرض میں فوج کے جوان عوام کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو اور جب پولیس ،مقامی انتطامیہ ناکام ہو جائے تو فوج ہی قربانیاں دیتی ہے۔محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کا مسئلہ ہو یا الیکشن ڈیوٹیوں کا،مردم شماری کروانی ہو یا دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنا ہو،سخت سردی و گرمی میں موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھ کر فوج کے سپاہی جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں اور اپنوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں ۔ہر معاملے میں فوج کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ سول حکومت جب فیل و ناکام ہو جائے تو فوج معاملات سنبھالتی ہے۔فوج نے ملک بھی چلایا گو کہ اسے مارشل لاء یا ایمر جنسی کا نام دیا گیا اور سیاستدانوں کو جو عوام کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کر کے اسمبلیوں میں آتے ہیں اور الیکشن جیت کر عوام کے ٹیکسوں سے اپنی جیبیں بھرتے ہیں وہ فوج کے اقتدار میں آنے کے مخالف ہوتے ہیں۔۔
کیونکہ انکا پیٹ نہیں بھرتا،ملک میں اسوقت قوم کی شدید ترین خواہش ہے کہ فوج آئے اور ملک کا کنٹرول سنبھالے،پانامہ لیکس کے شور کے بعد حکومت شدید پریشان ہے۔وزیراعظم کا آپریشن ہوا پھر بھی حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف جیسا سپہ سالار پاک فوج کے جوانوں کے عزم ،جذبے ،ولولے کو بڑھانے کے لئے ہر وقت ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔چیف بننے کے بعد راحیل شریف نے اپنی تمام عیدیں اگلے مورچوں پر جوانوں کے ساتھ گزاریں جبکہ ہمارے سیاستدان بیرون ملک جا کر عید مناتے ہیں۔قوم اس عظیم جرنیل کو سلام پیش کرتی ہے جس نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضرب عضب آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔دنیا نے راحیل شریف کی جرات و بہادری کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسلامی ممالک کے اتحا د نے انہیں ریٹائر منٹ کے بعد اس اتحاد کی سربراہی کرنے کی بھی پیشکش کی۔
راحیل شریف کے لئے پاکستانی قوم کے بچے بچے کے دل میں محبت ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا اگر چہ نواز حکومت دعوے کرتی رہی کہ ہماری حکومت میں دہشت گردی میں کمی آئی ۔حقائق سب کے سامنے ہیں۔پاک فوج میں بھرتی ہونے والا ہر فرد یہ سوچ کر اور عزم لے کر بھرتی ہوتا ہے کہ اب وردی پہننی ہے تو ملک کی عزت و عظمت کی حفاظت کرنی ہے۔سبز ہلالی پرچم کی توقیر کے لئے جانیں قربان کرنا وہ اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔میرا تعلق بھی ایسے علاقے سے ہے جہاںہر گھرانے میں سے کوئی نہ کوئی فوج کا سپاہی ملے گا۔چکوال کی تحصیل تلہ گنگ ولاوہ بلکہ ضلع بھر میں ہر قبرستان سے پاک فوج کے شہید کی قبر ملے گی۔مجھے فخر ہے کہ غازیوں و شہیدوں کی سرزمین تلہ گنگ سے کرنل(ر) سلطان سرخرو اعوان جیسے محب وطن لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے بھارت کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا۔میرے اپنے گائوں خوشحال گڑھ کے لوگ بھی انڈیا میں قید کاٹ کر آئے ہیں۔جن میں میرے خاندان کے بہادر غلام شاہ مرحوم،دوست محمد مرحوم بھی شامل ہیں۔ملک میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو،یا دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن ہو۔۔
Raheel Sharif
پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کا اعلان ہوتا ہے تو میں تلاش کرتا ہوں کہ تلہ گنگ کا کوئی جوان شہید ہوا یا نہیں اور یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر بڑے واقعے میں ملک وملت کے دفاع کے لئے تلہ گنگ چکوال کے باسیوں کا خون شامل ہے۔سانحہ گیاری سیکٹر ہو یا سلالہ پوسٹ،مانسہرہ میں ہیلی کاپٹر کریش کا واقعہ ہو یا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ،تلہ گنگ چکوال کا کوئی نہ کوئی سپاہی اپنی جان قربان کرتا ہے اور اہلیان تلہ گنگ کا سر فخر سے بلند کرتا ہے۔ مجھے عیدا لفطر پر بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا میرے کزن جو کہ آرمی میں ہیں ،عید کے ایام میں بہاولپور کینٹ میں انکے ہمرا ہ بمعہ فیملی رہا اور عید کی نماز بھی پاک فوج کے سینکڑوں جوانوں کی سیکورٹی میں اور کور کمانڈر بہاولپورکے ہمرار پڑھی ۔بہاولپور کینٹ میں افواج پاکستان کو جو نظم و ضبط دیکھنے میں آیا اور جس جانفشانی کے ساتھ جوان ڈیوٹی دے رہے تھے ،انکی تربیت دشمن کے ساتھ جھپٹنے اور مرنے پر ہوئی،اقتدار کے متلاشی یہ نہیں،انکے اندر عزم ہے تو ملک کے لئے جان لٹانے کا۔
میرے کزن کی سگنل کی یونٹ ہے اور وہ اس یونٹ کے انچارج (بی ایچ ایم ) ہیں۔لاہور سے انتیس رمضان کو دوپہر ایک بجے سفر شروع کیا اور رات آٹھ بجے بہاولپور کینٹ کی چولستان لائن میں تھے۔رات عید کا اعلا ن ہوا تو صبح نماز عید کے لئے دو مقامات پر انتظامات کئے گئے تھے۔سپورٹس گرائونڈ میں کورکمانڈر سے لے کر سپاہی تک سب آفیسرز و جوانوں نے نماز عید پڑھنی تھی۔سٹیڈیم سے نصف کلومیٹر دور موٹر سائیکل پارکنگ بنائی گئی تھی جبکہ کینٹ کو نماز عید سے قبل مکمل سیل کیا گیا تھا کسی کو بھی آنے جانے کی اجازت نہیں تھی،سیکورٹی کے انتطامات دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند قدموں کے فاصلے پر فوج کے سپاہی کھڑے ہیں اور نصف کلومیٹر تک یہی صورتحال تھیان جوانوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ”اے وطن تو سلامت رہے ،یہ جان تو آنی جانی ہے”سٹیڈیم میں نماز عید کے بعد افواج پاکستان کے نوجوان جن میں میں ایک اجنبی تھا مجھے بھی ایسے عید مل رہے تھے جیسے میں انکے گھر کا فرد ہوں۔
مختلف شہروں کے نوجوانوں کی الفت محبت ایسی دیکھنے کو ملی جو شایدایک گھر میں دو بھائیوں کی بھی ممکن نہ ہو،ایک دوسرے پر مر مٹنے والے،عید کی دوسری نماز کا اہتمام ان جوانون کے لئے تھا جو ڈیوٹی کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکے تھے۔خیر عید کی نماز کے بعد کزن کے ہمراہ مختلف یونٹس کا دورہ کیا اور پاک فوج کے افسران و سپاہیوں سے ملاقات کی۔کزن نے یادگار ضیاء الحق بھی دکھائی جس کا افتتاح کرنے ضیا ء الحق آئے تھے اورواپسی پر شہید ہو گئے،آرمی پبلک سکول بہاولپور گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا۔مجھے تو لگ رہا تھا کہ شاید عید کے ایام میں سیکورٹی سخت ہو گی لیکن ایسا نہیں تھا،موٹر سائیکل سوا ر کو ہیلمٹ پہننا لازمی اور بغیر کاغذات و لائسنس کے موٹر سائیکل چلانے کی قطعی اجازت نہیں،کینٹ میں داخلے کے لئے مہمانوں کے لئے انٹری اور گیٹ پاس بھی ضروری ہے۔
Military Police
ملٹری پولیس کے نوجوان گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر نظر آتے ہیں جو کسی بھی موٹر سائیکل سوار سے خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو ملٹری پولیس کا سپاہی اسے کاغذ چیک کر سکتا ہے ۔ایسا ڈسپلن شایدفوج کے علاوہ سول اداروں کے بس کی بات نہیں۔بہاولپور کینٹ کے چوکوں پر انڈیا سے جنگوں میں چھینے گئے ٹینک دیکھ کر جذبہ ایمانی میں بیداری کی لہر آئی،ٹینکوں کی یونٹ بھی دیکھی جس میں ٹینک ہی ٹینک ہیں نظر آئے ،بہاولپور چونکہ ریتلا علاقہ ہے انڈیا کے ساتھ بارڈر بھی ریتلا یعنی ریگستان ہے اس لئے اس علاقے میں ٹینکوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔نئے اور پرانے ٹینک ،ایک ٹینک میں دو ہزار لیٹر پٹرو ل ڈلتا ہے اور جب وہ چلتا ہے تو نصف کلو میٹر تک مٹی ہی مٹی ہوتی ہے،ٹینک کے ڈرائیور جوانوں سے بھی ملاقات ہوئی ۔پارک میں گئے تو وہاں بھی ٹینک نظر آئے ،چھوٹے چھوٹے بچے ٹینکوں پر چڑھ کر تصاویر بنا رہے تھے۔پاک فوج کا ماٹو ایمان،تقویٰ،جہاد فی سبیل اللہ جو سنا تھا اور جانتا بھی تھا وہاں جا کر سمجھ آیا،ہر یونٹ کے مین داخلی دروازے پر اس یونٹ کے شہیدوں کے نام ،شہادت کا مقام اور تاریخ درج ہے۔ہر طرف ہریالی ہے۔۔
کینٹ کے بالکل ساتھ نورمحل جانے کا پروگرام بنایا لیکن سیکورٹی خدشات کے باعث نورمحل کو بند کیا گیا تھا۔غرضیکہ بہاولپور کینٹ میں پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ عید کے دنوں میں گزرے لمحات انتہائی یاد گار رہیں گے۔پاک فوج ہے تو یہ ملک ہے ،اگر فوج نہ ہوتی تو شاید سیاستدان جو ملک بچا ہے وہ بھی ہضم کر چکے ہوتے۔پاک فوج کے خلاف اقتدار و کرسی کے بھوکے سیاستدان انگلیاں اٹھاتے ہیں جنہوں نے اپنی آسائشوں کے انتظامات کئے ہوتے ہیں ۔وہ کیا جانیں کہ پاک فوج کاسپاہی وطن عزیز کی خاطرمرنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے،بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والے ،گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمروں میں سونے والے کیا جانیںکہ اگلے مورچوں پر جب دشمن کی گولیاں سروں سے گزر رہی ہوتی ہیں۔۔
اس وقت بھی پاک فوج کے جوان پاکستان کا پرچم تھامے نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہوتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں افواج پاکستان کے جوان شہید ہو رہے ہیں،سیاسی عمائدین کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ان شہیدوں کے گھروں میں جا کر اہلخانہ سے ملیں اور انکی دلجوئی کریں۔البتہ سیاسی حضرات سیاسی شہید بننے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔اگر انکی روش یہی رہی تو بعید نہیں کہ سیاسی شہید کی خواہش کرنے والوں کی خواہش پوری کر دی جائے اور پاکستان کی بیس کروڑ عوام کی عین امنگوں کے مطابق پاک فوج ہی ملک کا اقتدار سنبھالے جہاں ڈسپلن ہی ڈسپلن ہے اور اسکے بعد نعرہ تکبیر۔۔۔