ایک وقت تھا جب دنیا کی دو سپر پاور ز کے درمیاں اسلحہ کی دوڑ عروج پر تھی اور انہی دو ممالک کی باہمی رنجشوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے نت نئے اور خطرناک ہتھیاروں کی ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑھتے دنیا کے طول وعرض میں پھیل گیا۔چونکہ اسلحہ اور طاقت کی اس دوڑ نے دیگر ممالک کی بقاء وسلامتی کو غیر محفوظ کر دیا تھا لہذا تقریباً ہر بڑے ملک نے اپنے دفاع اور ملک وملت کی سلامتی کے لیے آگ کی اس بھٹی میں قدم رکھ دیا ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آگ اگر بھڑک اٹھی تو اس میں اس میں اس کا اتنا وجود بھی بچ نہ پائے گا مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہر ایک کو ایسا کرنا پڑا ۔دنیا کہ پہلی دس بڑی فوجی طاقتیں جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہے ،مقابلے کی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔بھارت جوکہ پاکستان دشمنی میںحد سے تجاوز کر چکا ہے اور جسے امریکا واسرائیل کے ساتھ ساتھ روس کی پشت پناہی اور آشر باد حاصل ہے ،اپنے عوام کو بھوک ننگ اور غربت افلاس کی دلدل میں دھکیل کر اسلحہ وبارود کے کارخانے دوکانیں سجا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں اس وقت ساٹھ فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں اور اس بڑی تعداد میں چالیس فیصد کے لگ بھگ ایسے افرادہیں جو راتوں کو فٹ پاتھوں ،سرکاری پارکوں اور مندورں وغیرہ میں سونے پر مجبور ہیں جن میں بھارتی سرکار دس سے پندرہ روپے فی کس کے حساب سے وصول کرتی ہے لیکن بھارت کے دماغ پر صرف ایک بھوت سوار ہے کہ اسے نہ صرف خطے کی بڑی طاقت بلکہ یہاں کا تھانیدار تسلیم کر لیا جائے مگر پاکستان جوکہ امن کا داعی ہے ،ایسے دہشت گرد ،ظالم وجابر اور مکار وشاطر دشمن کو خطے کا تھانیدار تو کجا ،بڑی قوت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہی بات عیار بھارت کی طبیعت ناتواں پر گراں گذرتی ہے چنانچہ وہ جنونیوں کی طرح اسلحہ کے ڈھیر پر ڈھیر لگاتا چلا جارہا ہے ۔پاکستان بھی بھارت کی فطرت اور اس کی تیاری وعیاری سے غافل نہیں لہذا دشمن کے مقابلے کے لیے اس نے خود مکمل طور پر تیار کر رکھا ہے۔
آج سے چند سال قبل بھارت کر سرپرست اعلیٰ امریکانے پاکستان پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اپنے میزائل ٹیسٹ کم کردے بلکہ انہی دنوں میں امریکا نے بھارت کو ہرطرح کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی یقین دہانی ہی نہ کرائی بلکہ فراہم بھی کردی ۔چین اور سعودی عرب بالخصوص چونکہ پاکستان کے بہترین دوست اور مضبوط اتحادی ہیں لہذا امریکا بھارت کو ایک طاقتور ملک کے طور پر ان ممالک کے سامنے لانا چاہتا ہے اور خاص طور پر پاکستان کے مقابل جو اس علاقے کا اہم ترین خطہ جس کی مضبوطی وسلامتی چین اور سعودی کی مضبوطی وسلامتی ست مشروط ہے یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا ہو یا بھارت ،یہ دونوں ممالک ہر طرح کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے پاکستان کے شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم دکھائی دیتے ہیں ۔پچھلے چند سالوں میں امریکا ، اسرائیل اور بھارت نے مل کر پاکستان کے اندر بدترین دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کی جس کا پاکستان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ان دہشت گرد ممالک کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے ۔پاکستان معتدد بار بھارت کو دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی دعوت دی مگر اس نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیا۔
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کی طرف اپنا دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہ کہ آپ ہماری طرف ایک قدم بڑھائیں ہم آپ کی طرف دوقدم بڑھائیں گے مگر بھارت نے حسب روایت اس طرف توجہ نہ دی اور اپنی فطری خباثت پر نہ صرف قائم رہا بلکہ دھمکی آمیز لہجہ اختیار کر لیا ۔بھارت کو دراصل کھربوں ڈالر سے تیار کیا گیا وہ اسلحہ چین نہیں لینے دیتا جو اس نے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنارکھا ہے ۔اگر پاک بھارت جنگ کسی وجہ سے رکی ہوئی ہے تو وہ صرف پاکستان کا تحمل وبرداشت ہے ورگرنہ بھارت نے اپنے تیئں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔بھارت نے دفاعی بجٹ میں ہوش ربا اضافہ کر رکھا ہے جو اس کے جنگی جنون کو واضح کرتا ہے 2019ء کا بھارتی دفاعی بجٹ تین لاکھ 81ہزار 931کروڑ سے زائد ہے جو پچھلے سال کے دفاعی بجٹ سے 6.87فیصد زیادہ ہے ایک بجٹ میں ایک لاکھ آٹھ ہزار 294روپے نئے ہتھیاروں کی ایجاد اور فراہمی کے لیے مختص کئے گئے ہیں ۔اس میں سے 29ہزار 447کروڑ روپے بری فوج کے لیے 23ہزار 362کروڑ ائر فورس پر خرچ کئے جائیں گے۔
بھارتی سرکار نے 2019ء کا سالانہ بجٹ پانچ لاکھ 684لاکھ 370ہزار کروڑ مختص کئے تھے مگر نا گزیر وجوہات کی بنا پر یہ رقم کم کرکے تین لاکھ 81ہزار 931کروڑکا بجٹ پیش کیا ۔بجٹ کی اس کمی کو بھارتی افواج کے تینوں سربراہوں نے نہ صرف نا پسند یدہ بلکہ نہایت ناکافی قرار دیا ۔اس کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس وقت اپنے دوہمسایہ ممالک چین اور پاکستان سے شدید خطرات لاحق ہیں اور سابقہ سالوں کی نسبت اس سال بھارت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے اور پیش کردہ اس بجٹ سے فوجی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں فوجی سربراہان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بھارت کا مقابلہ اس خطے کی دوانتہائی طاقتور فوجوں کے ساتھ ہے اور موجودہ یہ بجٹ بھارتی افواج کو مستحکم کرنے کے لیے ناکافی ہے اس لیے کہ اس بجٹ کا 70فیصد حصہ فوج کی تنخواہوں اور دیگر ضروریات پر صرف ہو جائے گا جو دو لاکھ دس ہزار 682کروڑ روپے بنتی ہے یاد رہے کہ بھارت نے 15فروری 2010ء میں نئی دہلی میں دفاعی سازوں سامان کی نمائش منعقد کی جس میں اٹلی ،فرانس ،امریکا ،روس ،برطانیہ ،آسٹریلیا ،جرمنی سمیت 35ممالک کی 350کمپنیوں نے شرکت کی ۔اس موقع پر بھارت نے اعلان کیا تھا کہ 2022ء تک وہ اپنے دفاعی بجٹ میں 200ارب ڈالر خرچ کر ے گا جس میں سے 100ارب ڈالر ائر فورس کے لیے طیارہ بردار جہاز حاصل کرنے کے علاوہ توپوں ،ٹینکوں ،راکٹ لانچروں ،نیوکلیئر اور آبدوزوں کی خریداری پر خرچ کئے جائیں گے ۔اس عالمی نمائش سے ناصرف تین ماہ قبل نومبر 2009میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان جدید ترین ائر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ بھی طے پایا معاہدے کے مطابق یہ جدید سسٹم 2017ء تک بھارت کے حوالے کر دیا جائے گا جبکہ اس بنیادی آلات پہلے ہی بھارت کے حوالے کر دیئے تھے ۔چنانچہ یہ جدید ترین ائیر ڈیفنس سسٹم 2017ء کے آخر میں بھارت کے حوالے کیا گیا۔
باراک 8نامی یہ انتہائی جدید ایئر ڈیفنس سسٹم جو کہ بحری جہازوں اور خشکی پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے ،میزائلوں اور ڈرئوں حملوں کو با آسانی نشانہ بناسکتا ہے۔بھارت کے اس جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے پاکستان کسی بھی صورت خاموش تماشائی بنے اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا چنانچہ پاکستان نے بھارت کو آگاہ کیا کہ وہ ارودوں اور جارحانہ رویے سے باز رہے جس سے دونوں ممالک کی بقاء سلامتی کو خطرات لاحق ہوں لہذا پاکستان نے دفاع وطن کو ترجیح دیتے ہوئے ہر طرح کے بھارتی دبائو کو مسترد کر دیا اور اپنی دفاعی ترقی کو جاری رکھتے ہوئے اپنی نیو کلیئر پاور میں بھر پور اضافہ کیا ۔پاک آرمی چیف نے بھارت کو متبنہ کیا کہ ہم بھارت کی ہر نقل وحرکت پر مکمل نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ہر جارحانہ اقدام کا بھر پور جواب دینے کی مکمل صلا حیت رکھتے ہیں اور بھارت کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے نومبر 2009ء میں جب بھارت اور اسرائیل کے درمیان ائیر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ ہو ا تو اسی سال نو مبر 2009میں بر طانیہ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے پاس 60سے 120تک ایٹمی ہتھیار موجودہیں ،ان ایٹمی ہتھیاروں کو طیاروں اور میزائلوں کے ذریعے استعمال کیا جاسکتا ہے اور پاک فوج انہیں اپنی اہم ضرورت اور اپنے روایتی حریف بھارت کی برتری کا جواب سمجھتی ہے ۔اسی طرح بھارت کے پاس 70سے 120تک جو ہری ہتھیار موجود ہیں اور ان دونوں ممالک اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دینے میں مصروف ہیں “یہ 2009کی برطانوی رپورٹ تھی مگر 2018کی تازہ امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس 110سے 120جبکہ بھارت کے پاس 110سے 130تک جو ہری ہتھیار موجود ہیں جن کی موجوگی میں اس خطے کو کسی بھی طرح پر امن خطہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستان نے 2008میں جب ہارپون کو اپ گریڈ کیا تو 23اپریل 2009ء میں اس کا کامیاب تجربہ کر دیا تو امریکا اور بھارت دونوں کو شدید تکلیف پہنچی لہذا میزائل اپ گریڈ یشن کے حوالے سے امر یکا اور بھارت دونوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان نے ہار پون میزائل اپ گریڈ کر کے اسے زمینی حملے کے قابل بنالیا ہے ۔ان میزائلوں کی تعداد 165ہے جو صدرریگن کے دور حکومت میں پاکستان کو دئیے گئے ۔بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سریش مہتا نے اپنے بیان نے اپنے بیان میں کہا کہ “پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر ہارپون میزائل میں جدت لانے سے بھارت کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوگئے ہیں اور پاکستان کے ان ہارپون میزائل کو اپ گریڈ کرنے سے ہتھیاروں کے پھیلا ئو کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔یہ پاکستان کا دفاعی ہتھیار نہیں بلکہ یہ بھارتی مفادات کے خلاف ہے “بھارتی سرپرست اعلیٰ امریکا نے اپنے اندر کی جلن کو ان الفا ظ میں ظاہر کیا جو امریکا کے نائب وزیر خارجہ پی جے کرولی کی زبانی منظر عام پر آیا۔
پی جے کرولی نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “اپ گریشن کے معاملہ میں امریکا نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اس لیے کہ کسی ملک سے حاصل کردہ آلات میں از خود بہتری یا تبدیلی “آرمزایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ “کی خدمت ورزی ہے جس کی امریکا اجازت نہیں دے سکتا “مگر پاکستان نے یہود وہنوذ کی اس بے ہودہ بک بک پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنی دفاعی ترقی میں وسعت دیتا چلا گیا اس لیے کہ ان منافقین اور دشمنان اسلام وپاکستان سے بچائو کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان کی باتوں پر کان دھرے بغیر ملک وقوم کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے لہذا یہ ہے وہ یہود وہنود اور یہود ونصاریٰ کی وہ پالیسی جو مسلم دنیا کے لیے نہایت بے حیائی و ڈھٹائی کے ساتھ اپنائی گئی ہے ۔اگر پاکستان یا کوئی مسلم ملک اپنے دفاع کے لیے چھوٹا سا قدم بھی اٹھائے تو خطے کا توازن بگڑ جاتا ہے یا پھر کسی نہ کسی قانون یا ایکٹ کی خلاف ورزی عمل پذیر ہو جاتی ہے جس کی آڑ میں یا تو پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں یا پھر اس پر چڑھائی کردی جاتی ہے مگر آفرین ہے افواج پاکستان پر کہ اس نے ہر طرح کے پریشر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملکی بقا ء وسلامتی کو مقدم جانا اور نومبر 2009میں پاکستان کے چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے مطابق چین پاکستان کو 36جدید طرز کے J-10جنگجوطیارے دے گا اسی طرح 18فروری 2010میں JF-17تھنڈر جدید طیاروں کی ایک کھیپ فضائیہ میں شامل کردی گئی جس نے بھارت کی نیندیں حرام کردیں ۔سویڈن کا تیار کردہ “ساب 2000ائر بورن ارلی واننگ اینڈ کنٹرول سسٹم”طیارہ بھی پاک فضائیہ میں شامل ہو چکا ہے ۔یہ طیارہ اپنے اطراف میں 400کلو میٹر تک فضا میں نقل وحرکت کی نشاہدہی کر سکتا ہے ۔2009-10ء بالخصوص عسکری قوت میں اضافہ کرنے کے سال تھے۔
انہی دوسالوں میں دونوں ممالک نے ایک سے بڑھ کر ایک نئے اور جدید ہتھیاروں میں ترقی کی منازل طے کیں اور اس کی شروعات بھارت نے نومبر 2009میں اسرائیل کے ساتھ جدید ترین ائر ڈیفنس سسٹم کے معاہدہ دسمبر 2009میں 350کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل دھنوش کا کامیاب تجربہ کیا ،دھنوش کا یہ تجربہ خلیج بنگال میں بھارتی بحریہ کے لڑاکا جہاز آئی این ایس سبھالا سے کہا گیا جو 500کلو گرام تک کے وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،یہ میزائل پر تھوی میزائل کی ایک کڑی ہے جسے آگے بڑھایا گیا ہے ،جنوری 2010ء میں بھارت نے آسترامیزائل کا ایک اور کامیاب تجربہ کیا ،اس میزائل کا ایک اور کامیاب تجربہ کیا ،اس میزائل میں یہ خوبی بطور خاص ہے کہ نظروں سے اوجھل سپر سانک فضائی اہداف کو نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ،جنوری 2010میں بھارتی حکومت نے اپنی دفاعی قوت کو بڑھانے کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اگلے دس برسوں میں بھارتی افواج کو کم از کم ایک ہزار براہموس میزائل سے لیس کردیا جائے گا ۔یاد رہے کہ یہ خطرناک میزائل بھارت اور روس کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔یہ وہی میزائل ہے جس کی دھمکی بھارت نے پلوامہ پر پاکستان کو دی کہ پاکستان نے بھی النصر ،تیمور کی صورت اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں زبردست اور جاندار اضافہ کیا ۔اس طرح جوہری ہتھیار ودیگر جنگی قوت رکھنے والے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہیں اگر یہ جنگ ہوئی تو کوئی عام نہیں بلکہ ایک روایتی جنگ ہوگی جسے فتح وشکست سے بالا تر کہا جا سکتا ہے ۔دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان اور بھارت پر لگی ہیںجہاں دن بدن تنائو بڑھتا چلا جارہا ہے اوریہ تنائو جنگ کی صورت اگر اختیار کرتا ہے تو اسے تیسری اور تباہ کن عالمی جنگ کی طرف لے جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا نے پاک بھارت بارڈر کو خطرناک ترین بارڈر قرار دیا ہے۔۔۔۔۔۔