واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دفاعی محققین نے اس ممکنہ منظر نامے کی تنبیہی تصویر کشی ایک ایسی ریسرچ رپورٹ میں کی ہے جو بدھ دو اکتوبر کو شائع ہوئی۔ اس رپورٹ میں سال 2025ء کو ایک ایسا امکانی سال تصور کیا گیا ہے، جس میں عسکریت پسند نئی دہلی میں بھارتی پارلیمان پر ایک بڑا حملہ کر دیتے ہیں اور بھارت کی زیادہ تر سیاسی قیادت اس حملے میں ماری جاتی ہے۔
اس کے بعد نئی دہلی کی طرف سے کشمیر کے تنازعے ہی کی وجہ سے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ٹینک بھیج دیے جاتے ہیں اور پاکستان، جسے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے کئی گنا بڑے حریف ہمسایہ ملک کے ہاتھوں اس کا وجود ہی شدید خطرے میں پڑ گیا ہے، کشمیر میں فوجی چڑھائی کرنے والے اپنے مخالف ملک کو جنگی نوعیت کے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ جواب دیتا ہے۔
اس ریسرچ پیپر میں لکھا گیا ہے کہ اس طرح اس خطرے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسا جوہری تصادم شروع ہو سکتا ہے، جو انسانی تاریخ کا آج تک کا ہلاکت خیز ترین تنازعہ ثابت ہو گا۔ ایسی کسی ممکنہ جنگ میں بہت سے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت اتنا گر جائے گا کہ برف کے زمانے کے بعد سے کرہ ارض کو اتنے کم درجہ حرارت کا کبھی کوئی تجربہ ہی نہیں ہوا ہو گا۔
اس کے علاوہ یہی ممکنہ جنگ فوری طور پر دس کروڑ (100 ملین) انسانوں کی موت کی وجہ بنے گی اور اس کے بعد دنیا کو وسیع تر پیمانے پر بھوک اور فاقوں کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی وجہ یہ ہو گی کہ جوہری ہتھیاروں سے حملوں کے بعد اتنے بڑے اور گہرے تاریک بادل فضا میں موجود ہوں گے کہ کم از کم بھی ایک عشرے تک سورج کی روشنی زمین پر نہیں پہنچ پائے گی اور عالمگیر سطح پر زرعی شعبہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔
اس بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ دفاعی اور اسٹریٹیجک ماہرین کی طرف سے یہ تحقیقی تنبیہ ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے، جب جنوبی ایشیا کی انہی دو روایتی حریف ہمسایہ ریاستوں کے مابین کشمیر ہی کے تنازعے کے باعث کشیدگی اپنے عروج پر ہے ۔ اس جنگی امکان میں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر ہی کے تنازعے کے باعث آپس میں ایک سے زائد جنگیں پہلے بھی لڑ چکے ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیروں میں اضافہ کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت میں سے اس وقت ہر ایک کے پاس تقریباﹰ 150 جوہری ہتھیار موجود ہیں اور امکان ہے کہ 2025ء تک نئی دہلی اور اسلام آباد کے پاس موجود نیوکلیئر وار ہیڈز کی فی کس تعداد 200 سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔
جریدے ‘سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے شریک مصنف اور رُٹگرز یونیورسٹی کے ماحولیاتی علوم کے پروفیسر ایلن روبوک کہتے ہیں، ”مجھے اس بات پر بھی افسوس ہے کہ اس رپورٹ کا اب شائع ہونا دراصل اس لیے بھی بہت بروقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے بہت زیادہ کشیدگی اب بھی پائی جاتی ہے اور آپ ہر مہینے ہی ایسی رپورٹیں پڑھتے ہیں کہ سرحد (کشمیر میں کنٹرول لائن) پر پھر لوگ مارے جا رہے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مصنفین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگرچہ انہوں نے اپنی تحقیقی مثال میں یہ لکھا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے حملہ پاکستان پہلے کر سکتا ہے، لیکن ان کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ان کی رائے میں پاکستان واقعی ایسا کرے گا بھی۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے طور پر واضح کر چکا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار اس وقت تک استعمال نہیں کرے گا، جب تک اسے یقین ہو کہ وہ اپنے خلاف کوئی بھی بھارتی فوجی یلغار روایتی ہتھیاروں اور روایتی جنگ لڑتے ہوئے روک سکتا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
دوسری طرف بھارت بھی اپنے طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ کسی بھی مسلح تنازعے میں اپنے جوہری ہتھیار ‘پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی‘ اپنائے ہوئے ہے۔ لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ ان دونوں طرح کے دلائل کے باوجود جنوبی ایشیا کی انہی دونوں جوہری طاقتوں کے مابین ایٹمی جنگ کا خطرہ تو اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی بھی جوہری جنگ فوری طور پر ہی 100 ملین تک انسانوں کی موت کی وجہ بن سکتی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ کے مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دونوں ممالک دنیا کے ایک انتہائی گنجان آباد خطے میں واقع ہیں، جہاں کئی شہروں کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔
دوسرے یہ کہ ایسا کوئی بھی تنازعہ اس لیے بھی انسانی تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز تصادم ہو گا کہ انسانی تاریخ میں آج تک کی سب سے ہلاکت خیز جنگ دوسری عالمی جنگ تھی، جس میں مجموعی طور پر 75 ملین سے لے کر 80 ملین تک انسان مارے گئے تھے۔ مگر جس تباہ کن جنگی امکان کے خلاف ان ماہرین نے تنبیہ کی ہے، وہ تو فوری طور پر ہی دس کروڑ تک انسانوں کو جلا کر بھسم کر دے گا۔