اسلام آباد (جیوڈیسک) ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پولیو کا معاملہ کسی اور ملک سے زیادہ ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں پولیو سے نمٹنے کیلئے پرعزم ہیں۔ پولیو کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت سے بھی رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پولیو ویکسین انڈونیشیا سے درآمد کرتا ہے۔
انڈونیشیا اسلامی ملک ہے ویکسین کے حلال ہونے سے متعلق شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سرتاج عزیز کی گزشتہ روز برطانوی وزراء سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سیکرٹری تھریسامے نے پاکستان کی نئی اندرونی سیکورٹی پالیسی کی تعریف اور حمایت کا یقین دلایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات سیکورٹی، دفاعی اور انسداد دہشتگردی کے شعبوں میں مزید تعاون بڑھانے اور 2014 میں افغانستان سے نیٹو انخلاء کے بعد کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کئی اسلامی ممالک سے سرمایہ کاری اور تجارتی شعبوں میں تعاون چل رہا ہے معلوم نہیں وزیر خزانہ نے کس برادر اسلامی ملک کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ سیکورٹی شعبے میں دوطرفہ تعاون جاری ہے تاہم اس حوالے سے کوئی مخصوص معاہدہ نہیں ہوا۔ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے سفیروں کو بین الاقوامی سفارتی قواعد کا احترام کرنا چاہیے۔
یورپی یونین کے سفیروں کو پاکستان کے اندرونی معاملات بارے بیان بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ نے پاکستان کے سول جوہری نظام حفاظتی اقدامات پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے دورہ برطانیہ کی ابھی تاریخ طے نہیں ہوئی ہیگ میں صدر اوبامہ اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان بھی ملاقات طے نہیں ہوئی۔ کانفرنس کے موقع پر کوئی بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام جی سی سی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کے اندرونی اختلافات بارے کوئی رائے نہیں دینا چاہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے پاکستان مکمل طور پر پرعزم ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کی طرف سے بھی بیان آ چکا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس معاملے پر ایران پاکستان کو غیر سنجیدہ سمجھتا ہے۔
تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے امید ہے جلد دونوں ممالک ایک دوسرے کو مارکیٹ تک بلا امتیاز رسائی دے دیں گے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں دفتر خارجہ رکاوٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تعلقات بارے کوئی بھی فیصلہ پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت نے کرنا ہے۔