تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ 1994 ء میں پاک ایران پائپ لائن منصوبہ زیر غور آیا۔ اٹھارہ سال تک یہ منصوبہ مختلف مراحل سے گزر کر اْتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ ایک مرحلے پر بھارت اور چین بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتے رہے۔ لیکن مختلف مصلحتوں اور بین الاقوامی سطح پر اس منصوبے کی مخالفت کی بناء پر کئی ممالک اس سے لاتعلق رہے۔ابتدائی مراحل میں اس پروجیکٹ میں بھارت بھی شامل تھا۔لیکن 2009 ء میں بھارت اس پروجیکٹ سے دستبردار ہوگیا۔بھارت نے قیمت اور سکیورٹی خدشات کیوجہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے۔کہ بھارت کی دستبرداری امریکہ سے بھارت کی نزدیکی اور پاکستان وایران کے ساتھ عد م اعتماد کا اظہار ہے۔لیکن بھارت اس وقت بھی ایران سے تیل کا ایک بڑا خریدار ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں پوری دنیا کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ پاکستان کے دو ہمسائے چین اور روس دنیا کی سپر پاور ہیں۔ ہندوستان جس کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے مستقبل کی کنزیومر مارکیٹ ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ ہندوستان کے بھوکے ننگے لوگوں کی ضروریات پوری کریں گے۔ ہندوستان کوتیل، گیس ،کوئلہ اور ایٹمی مواد کیلئے پاکستان کی ریلویز، موٹرویز، سڑکیں اور زمین چاہئے ہو گی۔ چین اور روس کو خلیج فارس اور افریقہ کی منڈیوں اور ہندوستان کی منڈیوں تک رسائی کیلئے پاکستان کے راستوں کی ضرورت ہو گی۔
بتایا جاتاہے کہ دنیا کا چالیس فیصد تیل گوادر سے چھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ دنیا کا 2000 ارب بیرل تیل ایران اور خلیج کی ریاستوں میں موجود ہے۔ چار سو ارب بیرل تیل کیسپین کے سمندر میں موجود ہے جسے وہ ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کے راستے چین، ہندوستان، انڈونیشیا، آسٹریلیا اور جاپان کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ایران، مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ممالک کا تیل چین، ہندوستان، مشرق بعید کو صرف پاکستان کے راستے آسانی سے جا سکتا ہے یا پاکستان کی اجازت کے بغیر سمندری راستوں سے جائے گا۔ جہاں سے تیل بھیجنا ہوتا ہے اس کو انٹرنل انجکشن سٹیشن کہتے ہیں، وہاں تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ ہر تیس سے چالیس کلومیٹر کے بعد کمپریسر یا پمپ سٹیشن ہوتے ہیں جہاں سے تیل کو دھکا دیا جاتا ہے۔ اگر راستے میں تیل کا نکالنا مقصود ہو جیسے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان پائپ لائن ہے تو وہاں Partial Delivery Station لگائے جاتے ہیں۔ بلاک والو سٹیشن ہر 48 کلو میٹر کے بعد لگائے جاتے ہیں تاکہ اگر راستے میں پائپ لائن کسی وجہ سے پھٹ جائے تو تیل بلاک کر کے پائپ لائن کی مرمت کی جا سکے۔ اس کے بعد آخری حصہ ہوتا ہے جسے فائنل ڈلیوری سٹیشن کہتے ہیں۔ یہاں سے تیل نکال کر بحری جہازوں، ریل گاڑیوں اور ٹرکوں پر لاد کر منزل کی طرف روانہ کیا جاتا ہے۔
تیل گاڑی کے ایک ٹینکر میں 32000 گیلن 1,40,000لیٹر تیل آتا ہے اگر ایک انجن کے ساتھ 100ٹینکر ہوں تو 1,40,000لیٹر تیل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ ریل گاڑی لے کر 20کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے منزل تک پہنچاتی ہے جبکہ پائپ لائن سے تیل 6-8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتا ہے۔ ایک میڈیم سائز کی پائپ لائن 1,50,000 بیرل تیل یومیہ لے کر جاتی ہے جبکہ اتنا تیل لے جانے کیلئے 750 ٹرک یا ریل کے 75 ٹینکروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریل کے ذریعے تیل لے جانے کا خرچہ پائپ لائن کی نسبت تین گنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ ٹرکوں کے ذریعے 20 گنا زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ پائپ لائن سے تیل بھیجنا سب سے سستا، حفاظت کے ساتھ جلدی اور گندگی پھیلائے بغیر پہنچتا ہے جبکہ ریل جلدی تیل لے جاتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی لچک ہوتی ہے۔ امریکہ میں 566 ریل گاڑیاں تیل لے کر روزانہ 3,20,000 کلومیٹر کا سفر کرتی ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ کے اندر آٹھ لاکھ کلومیٹر تیل اور گیس کی پائپ لائن ہیں۔ امریکہ میں ستر فیصد تیل پائپ لائنوں سے 23فیصد ریلوے اور سات فیصد ٹرکوں سے لیجایا جاتا ہے۔
2009 ء میں روس اور یوکرین کی لڑائی میں پائپ لائن وجہ تھی جس سے یورپ کو تیل اور گیس ملنا بند ہو گئی۔ یورپ چونکہ روس پر تکیہ کر کے بیٹھا تھا، اس لئے جب تیل اور گیس کی کمی ہوئی تو لوگوں نے اپنے گھروںکو گرم رکھنے کیلئے صوفے بھی جلائے۔ شام میں لڑائی کی ایک وجہ پائپ لائن بھی ہے کیونکہ ایران عراق کے راستے شام تک اور پھر بحرہ روم تک پائپ لائن بچھا کر یورپ کو اپنا تیل اور گیس بیچنا چاہتا ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ پائپ لائنیں اس کے علاقے سے گزریں۔ اس تمام لڑائی میں صرف مسلمان ہی مارے جا رہے ہیں۔ جن کمزور ملکوں کے اندر سے پائپ لائن گزرتی ہیں وہاں طاقتور قومیں حملے بھی کرتی ہیں اور ان ممالک پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ افغاستان پر امریکی قبضہ دراصل بحرہ کیسپین سے تیل کی وجہ سے ہے جو افغانستان اور پاکستان کے ذریعے گوادر تک آنا تھا۔ بلوچستان میں شورش بھی امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کی وجہ سے ہے کیونکہ ہندوستان اور ایران نہیں چاہتے کہ پاکستان سے تیل کی پائپ لائن بحرہ کیسپین کا تیل لے کر گزریں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کو مفت راہداری ملے۔ اس وقت ایشیاء میں 20، یورپ میں 15 ،لاطینی امریکہ میں 19پائپ لائنیں بچھ رہی ہیں اور پاکستان میں سے پائپ لائن روکنے کیلئے ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ حائل ہیں۔ مستقبل میں پاکستان سے درج ذیل پائپ لائنیں بچھیں گی۔
ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا TAPI پائپ لائن 1700 کلومیٹر لمبی ہو گی اور اس پر 7.6ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ یہ 56 انچ قطر کی ہو گی ،ابتدائی طور پر اس میں سے 950ارب مکعب فٹ گیس فراہم ہو گی جس میں سے 71ارب مکعب فٹ گیس افغانستان کو ملے گی۔ 440ارب مکعب فٹ گیس پاکستان اور اگر ہندوستان شامل ہوا تو ہندوستان کو بھی 440ارب مکعب فٹ گیس ملے گی۔ افغانستان اس پائپ لائن کے افغانستان میں سے گزارنے کے عوض سالانہ چالیس کروڑ ڈالر لے گا۔ پاکستان کو بھی 50 کروڑ ڈالر سالانہ صرف اس لئے ملیں گے کہ یہ پائپ لائن پاکستان کی 800 کلومیٹر سرزمین استعمال کرے گی۔ ایران ، پاکستان، انڈیا(IPI) پائپ لائن 2700 کلومیٹر لمبی ہو گی یہ 1000 کلومیٹر پاکستان کے اندر سے گزرے گی جس کا ہندوستان پاکستان کو ساٹھ کروڑ ڈالر سالانہ دینے سے انکاری ہے اور وہ صرف 15 کروڑ ڈالر سالانہ دینا چاہتا ہے۔ اس پائپ لائن کا خرچ تقریباً سات ارب ڈالر ہے۔ اس میں سے روزانہ 11 کروڑ مکعب میٹر گیس چلے گی۔ جب ہندوستان اس گیس پائپ لائن میں شامل تھا تو ایران 48 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرنا چاہتا تھا۔ ہندوستان اس معاہدے سے نکل گیا تو ایران پاکستان کو 98 سینٹ فی یونٹ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان میں سوئی گیس کمپنی صنعت کو جو گیس فروخت کرتی ہے وہ 3.5 ڈالر فی یونٹ ہے۔
ایران چین تیل اور گیس کی دو پائپ لائنیں ایران سے چین تک بچھائے گا جس کی لمبائی 3000 کلومیٹر ہو گی۔ جب یہ تیل کی پائپ لائنیں بچھ گئیں تو ان پر تقریباً 14ارب ڈالر خرچ ہونگے جس میں سے 80 فیصد پاکستان کو ملیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا راستہ استعمال کرنے پر بھی چین پاکستان کو سالانہ چھ ارب ڈالر دے گا۔ ان پائپ لائنوں کی حفاظت کرنے والے بھی تقریباً دو ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ گوادر اور چین کے درمیان بھی ایک گیس اور ایک تیل کی پائپ لائن بچھے گی جو 2500 کلومیٹر لمبی ہو گی۔ یہ تیل اور گیس خلیجی ریاستوں سے سمندر کے راستے پائپ لائنوں سے گوادر تک آئے گا۔ ان پر بھی چین اور خلیجی ممالک نے تقریباً 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سے بھی پاکستان کو سالانہ 6 سے 8ارب ڈالر ملیں گے اور ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا۔چین 2020ء تک سالانہ پانچ سو ارب ڈالر کا تیل بیرونی ممالک سے خریدے گا۔ اس کے علاوہ دنیا کا نصف کوئلہ بھی چین میں بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال ہو گا اور یہ کوئلہ چین دوسرے ممالک سے خریدے گا کیونکہ چین میں آدھے بجلی گھر کوئلے سے چلتے ہیں۔ چین سے جو گاڑیاں خلیجی ریاستوں، یورپ اور افریقہ کیلئے کنٹینر لے کر گوادر آئیں گی وہ واپسی پر تیل یا کوئلہ لے کر جائیں گی۔ پاکستان میں چونکہ دنیا میں سب سے زیادہ کوئلے کے ذخائر ہیں۔ اس لئے چین پاکستان سے خریدے گا اور یہ کوئلہ پانی میں ملا کر پائپ لائنوں کے ذریعے بھی چین جا سکتا ہے جس کیلئے چین کو مزید دو پائپ لائنیں بچھانا پڑیں گی۔
پاکستان میں پچھلے پانچ سال دوہری شہریت رکھنے والوں کی حکومت تھی۔ اس لئے پاکستان اور چین کے درمیان ترقیاتی منصوبے نہ چل سکے۔ بلوچستان اور شمالی پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے چین نے متبادل انتظامات کر لئے ہیں جن میں چین اور برما کے درمیان 1100 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھ گئی ہے اور اس پر 2.5ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ چین خلیجی ممالک سے گیس اور تیل خرید کر برمالائے گا اور وہاں سے تیل اور گیس پائپ لائنوں کے ذریعے چین جائے گا۔ ان میں سے ایک پائپ لائن دو کروڑ ٹن تیل سالانہ چین کو لے جائے گی جبکہ دوسری پائپ لائن سالانہ 12 ارب کیوبک میٹر گیس چین لے کر جائے گی۔ چین برما میں چونگ چنگ ، سی چوآن اور یونان میں ریفائنریاں بھی لگائے گا۔ 2020ء میں چین 70فیصد تیل درآمد کرے گا اور اس کو تقریباً ایک کروڑ بیرل تیل کی یومیہ ضرورت ہو گی۔ 2020ء تک چین خلیجی ممالک سے ساٹھ فیصد تیل درآمد کرے گا۔ 2005ء میں چین میں دو کروڑ گاڑیاں تھیں جو 2020ء میں 16 کروڑ ہو جائیں گی۔ چین ترکمانستان سے بھی تیل کے معاہدے کر رہا ہے۔ یہ پائپ لائن ازبکستان، کرغیزستان اور تاجکستان سے ہو کر گزرے گی۔ 2020ء تک اس پائپ لائن کے ذریعے 20-30ارب مکعب میٹر تیل (30کروڑ ٹن تیل) اور 21000ارب مکعب میٹر گیس درآمد کرے گا۔ کرغیزستان سے پائپ لائن گزارنے کیلئے چین کرغیزستان کو سالانہ 1.4ارب ڈالر دے گا جو صرف 225 کلومیٹر کیلئے ہے اور ایک ریفائنری بھی لگائے گا۔ ترکمانستان چین پائپ لائن کیلئے جو تاجکستان سے 800 کلومیٹر گزرے گی اس کیلئے چین تاجکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ دے گا۔چین قزاقستان سے بھی پائپ لائن کے ذریعے تیل منگوائے گا اس کے 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ چین روس سے بھی سالانہ دس کروڑ ٹن تیل خریدے گا اور اس کیلئے 85ارب ڈالر کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ چین نے ایران کے تیل اور گیس کے کنوئوں پر 36ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔
Balochistan Oil Reserves
بلوچستان میں امن ہو گا تو ایران چین پائپ لائن بچھے گی۔ امریکہ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق پاکستان میں نو ارب بیرول تیل کے ذخائر ہیں اور 586ہزار ارب مکعب فٹ گیس موجود ہے۔ یاد رہے کہ سوئی گیس کے ذخائر صرف دو ہزار مکعب فٹ ہیں۔ پاکستان آج کل روزانہ 4.2ارب مکعب فٹ گیس پیدا کرتا ہے اور 70,000 بیرل تیل نکال رہا ہے۔چین کو پاکستان کے ذریعے پائپ لائنوں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایک تو چین کو 2020ء میں بہت ہی تیل اور گیس کی قلت کا سامنا ہو گا دوسرا چین کے فلپائن، ملیشیا، برونائی، جاپان اور ویت نام کے ساتھ سمندر کی حدود پر اختلافات شروع ہو گئے ہیں۔ ادھر امریکہ بھی ہندوستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن ، ویتنام وغیرہ کے ساتھ دفاعی سمجھوتے کر رہا ہے تاکہ چین کے اردگرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ فی الحال چین نے برما کے راستے اور ترکمانستان سے تیل کی پائپ لائنیں بچھا دی ہیں لیکن پھر بھی برما والے روٹ پر چینی بحری جہازوں کو خطرہ رہے گا۔
دو سال قبل ایک امریکی اخباری نمائندے نے چینی دفتر خارجہ کے آفیسر سے پوچھا کہ چین پاکستان کی اتنی طرف داری کیوں کر رہا ہے۔ چینی نمائندے نے جواب دیا کہ پاکستان چین کا اسرائیل ہے۔ یہ چینی نمائندے نے یونہی نہیںکہا تھا۔ چین کے صوبے سینگیانگ(مشرقی ترکمانستان) میں 600ارب ڈالر کی انڈسٹری لگی ہوئی ہے۔ وہاں کا تیارکردہ مال اگر سیدھا گوادر آئے تو 2500 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اگر چین کی نزدیکی بندرگاہ تک جائے تو 3500 کلومیٹر ہے۔ وہاں سے بحری جہاز میں لاد کر سامان گوادر تک 16500 کلومیٹر ہے۔ اس میں جہاز کو گوادر تک آنے کیلئے 35 دن لگتے ہیں۔ تین دن سینکیانگ سے نزدیک پورٹ تک یعنی سینکیانگ سے گوادر کا فاصلہ براستہ سمندر 38 دن یا 20,000 کلومیٹر ہے اور پاکستان کے راستے تین دن کی مسافت اور صرف 2500کلومیٹر ہے۔ اگر چینی بحری جہاز سمندری راستے آتے ہیں تو امریکہ، ہندوستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، ویت نام، جاپان اور ملیشیاء کی نیوی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی آج کل جاپان، فلپائن، ملیشیاء ،ویت نام کے ساتھ سمندری حدود کے جھگڑے چل رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں، یورپ اور افریقہ کے ساتھ محفوظ راستہ صرف اور صرف پاکستان ہے۔
دوسری جانب پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کی آخری ڈیڈ لائن یکم جنوری 2015ء کو ختم ہو جائی گی ، یکم جنوری سے 850 ملین مکعب فٹ یومیہ گیس نہ خریدی تو 30 لاکھ ڈالر یومیہ جرمانہ ادا کرنا ہو گا، ملک میں گیس کا بحران بدستور برقرار جبکہ موجودہ حکومت نہ تو متبادل کے طور پر نہ تو تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کر سکی جبکہ نہ ہی 400 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کی درآمد شروع ہو سکی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 11 مارچ 2013ء کو پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کئے تھے موجودہ حکومت نے ایک سال میں 10 ماہ کے عرصہ میں منصوبے پر عملدرآمد کیلئے پاکستانی علاقے میں ایک میٹر پائپ لائن نہیں بچھائی جبکہ حکومت ایران نے 56انچ قطر کی 1172کلو میٹر طویل پائپ لائن چھ ماہ قبل بچھا دی۔
تفصیلات کے مطابق 11 مارچ 2013ء کو طئے پانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ جس کے تحت پاکستان نے ایران سے یکم جنوری 2015ء سے 310 بی سی ایف سالانہ یعنی 850 ملین مکعب فٹ یومیہ گیس درآمد کرنا تھی۔معاہدے کے مطابق حکومت ایران نے اپنے علاقے میں 56انچ قطر کی 1172 کلو میٹر طویل پائپ لائن اپنے خرچے سے تعمیر کرنا تھی جو کہ 6ماہ قبل مکمل کرلی جبکہ حکومت پاکستان نے اس خاطر اپنے علاقے میں 785 کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کرنا تھی جبکہ ایک سال 9 ماہ اور 27 روز گزرنے کے باوجود موجودہ حکومت نے ایک میٹر پائپ لائن نہیں بچھائی جبکہ نہ ہی حکومت معاہدے پر عملدرآمد کی ڈیڈ لائن میں توسیع کرانے میں کامیاب ہو سکی حالانکہ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اس مقصد کیلئے ایران کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے اندر گیس کا بحران نہ صرف برقرار ہے بلکہ پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے، موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ گیس کے بحران پر قابو پانے کیلئے تاجکستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا(تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا جائے گا اور 400 ملین مکعب فٹ یومیہ ایل این جی قطر سے درآمد کی جائے گی لیکن مذکورہ بالا عرصہ گزارنے کے باوجود حکومت نہ تو تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کر پائی ہے جبکہ نہ ہی بوجوہ ایل این جی کی درآمد شروع ہو سکی ہے۔ امریکہ میں دْنیا میں سب سے زیادہ گیس 611 بلین کیوبک میٹر گیس پیدا ہوتی ہے۔روس کے بعد ایران میں دْنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر ہیں۔ایران میں کل گیس کی پیداوار 146 بلین کیوبک میٹر ہے۔جب کہ طلب 144 بلین کیوبک میٹر ہے۔ اس لحاظ سے ایران میں گیس کی فاضل مقدار موجود ہے۔پاکستان میں کل گیس کی پیداوار 42 بلین کیوبک میٹر ہے۔جبکہ طلب اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس وجہ سے پاکستان کو گیس لوڈشیڈنگ بھی کرنی پڑتی ہے۔اور بیرونی ممالک سے LNG اور LPG کی درآمد بھی ہورہی ہے۔تا کہ گیس کی شارٹ فال کو پورا کیا جاسکے۔پاکستان اپنی ضروریات کا صرف 30 فی صد گیس پیدا کرتا ہے۔جب گیس اور بجلی دونوں کی رسد وطلب میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔بجلی کی پیداوار کا انحصار بھی گیس پر ہے۔جب گیس کی کمی ہو جاتی ہے۔توبجلی کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔پاکستان میں صحیح بروقت پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے CNG اسٹیشنز کی بھرمار نے سارے تخمینے اور اندازے غلط ثابت کردئیے۔ رسد سے زیادہ اسٹیشنز کے قیام سے گیس کی لو ڈشیڈنگ مجبوراً کرنی پڑتی ہے۔پاکستان کی تقریباً 21 فی صد گاڑیاں گیس سے چلتی ہیں۔اس وقت پوری دْنیا میں 14.8 ملین گاڑیوں میں گیس بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔دْنیا میں گاڑیوں میں CNG استعمال کرنے والے ممالک میں ایران پہلے نمبر پر جو 2.86 ملین گاڑیوں میں ، پاکستان دوسرے نمبر پرجو 2.85 ملین گاڑویوں میں ، ارجنٹائن 2.07 ملین گاڑیوں میں ، برازیل 1.7 ملین گاڑیوں میں ، انڈیا 1.10 ملین گاڑیوں میں گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ایران اگر اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں میں گیس بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔تو اس کا جواز موجود ہے۔کہ مقامی طور پر گیس میسر ہے۔جبکہ پاکستان میں گیس کی کمی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں میں گیس کا استعمال کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔اور یہ گیس صنعتوں کو بند کرکے گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ ملکی صنعت کیلئے نقصان دہ ہے۔قدرتی گیس کا یہ بے ترتیب استعمال ملک کی صنعت اور گھریلو استعمال کیلئے سود مند نہیں ہے۔
امریکہ کو اس منصوبے پر شدید خدشات ہیں۔ایران پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ متاثر ہونے کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی ان پابندیوں کی ضد میں آسکتے ہیں۔اگر امریکہ نے ایران پر پابندیوں پر عمل درآمد کر کے پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی ، معاشی تعلقات کو ایران پر پابندی سے منسلک کیا تو پاکستان کیلئے یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہوگی۔اس وقت پاکستان امریکہ کا سب سے بڑ ا تجارتی پارٹنر ہے۔پاکستان اور امریکہ کے مابین کل 5 ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔پاکستان کے کل برآمدات کا 20 فی صد حصہ امریکہ کو جاتا ہے۔امریکہ سے پاکستان میں ایک کثیر رقم بیرونی سرمایہ کاری کی شکل میں آتی ہے۔امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے بعد اس سرمایہ کاری کے رک جانے کے بھی خدشات ہیں۔پچھلے سال امریکہ سے 238.6 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔اس سرمایہ کاری میں کئی سالوں سے مسلسل کمی آرہی ہے۔اس وقت امریکہ سے پاکستان کی دوطرفہ سرمایہ کاری (BIT) کے معاہدے کے سلسلے میں مذاکرات آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں۔کئی شقوں پر اتفاق ہوچکا ہے۔لیکن ایران کے پائپ لائن منصوبے کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کے امکانات ہیں۔کہ امریکہ دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو سرد خانے میں ڈال دے۔
روپے کی ساکھ ڈالر کے مقابلے میں روز بروز گرتی جارہی ہے۔ڈالر کی قیمت 100 روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ایک سال قبل ڈالر کی قیمت تقریباً 86 روپے بنتی تھی۔ایک سال کے عرصے میں روپے کی قدر میں اتنی کمی ہماری معیشت کیلئے سودمند نہیں ہے۔ہماری تمام تر تجارت ڈالر سے منسلک ہے۔امریکہ کی طرف سے پابندیوں کے خدشات کے پیش نظر روپے کی قیمت مزید گھٹنے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔جیسے ایران کی کرنسی کا حال ہے۔پاکستان کی کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں بہت نیچے حد تک جاسکتی ہے۔روپے کی قیمت گرنے سے بیرونی قرضوں میں اضافہ اور افراط زر کے سائے ہماری معیشت پر منڈلاتے رہتے ہیں۔جس سے برآمدات متاثر ہونے کا بھی احتما ل ہوسکتا ہے۔درآمدات خودبخود مہنگی ہو جاتی ہیں۔