تحریر : عنایت کابلگرامی پشتوزبان میں ایک کہاوت ہے کہ، ”ہر چا تا خپل کلے کشمیر دے”ترجمہ: ہر کسی کیلئے اپنا ہی گائوں کشمیر ہے۔ اس کہاوت سے مضمون کا آغاز اس لئے کہ مجھے بھی اپنا گائوں اپنے قوم لوگ عزیز ہے۔ اسپشلی اس وقت جب ان کے ساتھ ناجائز ہورہا ہو، میں قوم پرست نہیں ہو ں ،پر اپنے قوم کے ساتھ ہونے والے مظالم سے غافل بھی نہیں، پیارے آقا محمد رسول اللہ ۖ بھی اپنے قوم قریش سے بڑی محبت کیا کرتے تھے، جبکہ قوم پرست اس کو کہا جاتا ہے جو صرف اپنے ہی قوم کو صحیح کہے باقی سب کو غلط ، اس وقت کراچی میں کم بیش 40لاکھ پختون آباد ہے ، ان میں کچھ پاکستان کی آز ادی سے قبل کہ آبادہے، تو باقیوں میں کسی کہ ساٹھ سال ہوئے ہونگے تو کسی کہ چالیس ، کوئی بیس سال سے کراچی میں رہ رہاہوگا۔یہ سارے پاکستانی ہے ، البتہ کچھ ایسے لوگ بھی کراچی میں آباد ہے جو پختون تو ہے مگر پاکستانی نہیں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابرہے، مگر ان لوگوں میں بھی زیادہ تر پاکستان میں ہی پیدہ ہوئے ہیں ، ان کے باپ دادا پاکستان آئے تھے۔
پختون قوم کی تاریخ کئی ہزارسال پرانی ہے ۔ بہت سے روایتوں میں پختون بنی اسرائیل میں سے ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ حضرت سلمان علیہ سلام کے وزیر کا نام افغان تھا اور آپ اپنے وزیرافغان کے ساتھ ایک خفیہ زبان میں بات جیت کیا کرتے تھے جو بعد میں پشتو زبان کی تحقیق ثابت ہوئی ، ہندوستان میں پختونوں کی تاریخ بھی کم و پیش ہزار بارہ سو سال پرانی ہے ، پختونوں نے کئی عرصہ تک ہندوستان کے کئی ریاستوں پر حکومت کی ، محمود غزنوی کی تاریخ آج بھی ہندوستان والوں کو یاد ہے ، محمود غزنوئی کے دور سن 997 عیسوئی سے ہی پختون ہندوستان میں اپنا قدم جمانے لگے اس سے قبل موجودہ خیبر پختون خواء پر ہندوں اور سکھوں کی حکومت تھی ، یہ تمام علاقے پختون لیڈران اور ان کے مجاہدین نے ہندوں سے حاصل کئے ، اور اس کے بعد پختون ان علاقوں میں آباد ہونے لگے ، اس طرح پاکستان کی آزادی میں بھی پختونوں کا بھی بڑا کردار رہاہیں، پاکستان کا پہلا آئین سن 1974میں پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا اور اس آئین کے مطابق ہر پاکستانی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنا قومی شناختی کارڈ بنائے ، جس کے بعد لاکھو بلکہ کروڑوں پاکستانوں نے قومی شناختی کارڈ بنائیں ، کوئی بھی پاکستانی ملک کے کسی بھی حصے میں اپنا قومی شناختی کارڈ بنا سکتاتھا ، یوں چلتے چلتے 2002 پرویز مشرف کو دور آگیا اور پاکستان میں ایک نئے شناختی کارڈ کو متعاروف کریاگیا ، پہلے سادے سہ کارڈ ہوا کرتے تھے اب نئے شناختی کارڈ کمپیوٹرائز ہونے لگے ، یو ں ہر پاکستانی بشمول پختون اپنے اپنے شناختی کارڈ بنانے لگے ، اس کے بعد سنء 2011میں وفاقی وزارت داخلہ اور نادرہ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ سن 74والے ڈیزائین کے شناختی کارڈ اب بیکار ہے وہ کسی بھی کام میں نہیں آئینگے۔ جس کے بعد بہت سہ لوگوں نے پرانے شناختی کارڈآپنے پاس رکھنا بیکار سمجھا،جو آج ان کے لئے مسائل بننے لگا۔ ُ
گزشتہ 3سالوں سے شناختی کارڈ بنانے کا عمل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے ،جیسے کہ امریکا کا گرین کارڈ ہو ، امریکی گرین کارڈ بنانے سے مشکل ہے کراچی میں شناختی کا رڈ بنا نا بالخصوص پختونوں کے لئے ، اگر کوئی پختون نادرہ کے دفتر چلاجائے تو سب سے پہلے ان سے سن 1974کا رکارڈ مانگتے ہے اگر رکارڈ موجود ہو توپھر وہ وہ سوالات اور معلومات لے نا شروع کردے تھے ہے کہ بندہ اپنے آنے پر پچتانے لگتا ہے ، کسی کو کہا جاتھا ہے آپ کے والد کا شناختی کارڈ کراچی میں نہیں بنا اس لئے آپ گائوں میں اپنا شناختی کارڈ بنائے تو کسی کے والدہ کے کارڈ پر اعترازات اُٹھائے جاتے ہیں۔
اس وقت کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں پختون قوم کے شناختی کارڈ بلاک ہے یا انکوائری ڈال دئے گئے ، ایک بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کے لئے دھکو کے ساتھ ہزاروں روپے بھی خر چ کرنا پھڑ تے ہے ، جب کہ انکوائری میں پسے ہوئے شناختی کا رڈ کے لئے بھی ہزاروں روپوں تک کی رشوت د ینی پھڑتی ہے ، نہیں تو انکوائر سالہ سال چلتی رہتی ہیں۔یہ تمام معاملات صرف پختون قوم کے ساتھ ہی ہیں ، نادرہ کی کراچی کے مختلف آفسوں میں بیٹھے ہوئے نادرہ کے ملازم ڈھنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی پٹھان نا آئے ، اور الن اعلان کہتے ہے کہ ہم پختونوں کے شناختی کارڈ نہیں بنائینگے ، جو کرنا ہے کرلوں ، مثال کے طور پر دومہینے قبل ہمارے علاقے میں نادرہ کی ایک موبائیل وین آئی تھی ، اس میں موجود ان کا انچارج فیاض شیخ واضح طور پر یہ بات کرتا تھا کہ میں پٹھانوں کے شناختی کارڈ بلاک کرونگا ، ایک عات کے بنا بھی دونگا مگر زیادہ تر ریجک یا بلاک کردونگا ، اور ہوا بھی یہی دس دن تک نادرہ موبائیل وین میں سب سے زیادہ انکوئری پختون قوم سے ہی ہوئے دس آنے والے پختونوں میں صرف تین ہی فیاض شیخ کے معیار پر پورے اتر تے تھے ، وین کے جانے کہ بعد وہی کیا فیاض شیخ نے جس کا ڈر تھا ماسوائی چند کے باقی کسی بھی پختون کا فارم نہیں بھجوایا آگے ، علاقے کے چیئرمین کا بھائی وقاص شیخ سے ملا اور پختونوں کی رویداد سنائی تو انہوں نے صاف منا کیا کہ میں پختونوں کے فارم آگے نہیںبھجوائوںگا جو کرنا ہے کرلوں ۔
یہ تو صرف ایک موبائیل وین کی مختصرسی کہانی ہے اگر دیگر وینز یا نادرہ کے آفسوں کی کہانی لکھنے لگا تو ایک ضخیم کتاب بن جائیگی، پختون قوم کی جتنی تذلیل اس وقت کراچی میں کی جارہی ہیں ، اس سے قبل اتنی تذلیل کسی اور قوم کی دنیا کہ کسی ملک میں نہیں کی گئی ہوگی ، خلاصہ یہ ہے کہ کراچی میں پختونوں کے لئے شناختی کارڈ بنا نہ امریکی گرین کارڈ سے مشکل ہے ۔اس وقت کراچی میں پختونوں کے شناختی کارڈ محض اس لئے بلاک کئے جارہے ہیں یا ان کو نوٹس بھیجے جارہے ہیں کہ ان کی پیدائش کراچی کی نہیں ہے محض اس بنائی پرکسی کے شناختی کارڈ بلاک کرنا یا انہیں نوٹسز بھیجنا کہ ان کی پیدائش کراچی کی نہیں ہے ایسے اقدامات سوائے عوام میں نفرت پیدا کرنے کے اور کچھ بھی نہیں،یہ کوئی قانون نہیں ہے کہ دوسرے صوبوں یا شہروں کے لوگوں کے شناختی کارڈ کراچی میں نہیں بن سکتے ہیں یا جو بنے ہوئے ہیں وہ بلاک کردئیے جائیں، پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں جہاں کاروبار کرے،رہائش مستقل یا عارضی اختیار کرے قانون کی رو سے کوئی پابندی نہیں ہے،ہر ادارے نے اگر آئین وقانون کی تشریح اپنی منشا اور انداز کے مطابق شروع کردی تو پھر یہ ملکی اور قومی وحدت کو سخت نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ ایک سوال یہاں یہ بھی بنتا ہے کہ افغانیوں کی وجہ سے پختون قوم کے شناختی کارڈ بنانے میں مسائل آرہے ہیں ، تو ہزارہ قوم یہ بھی تو افغانی ہے ، ان کے شناختی کارڈ چاہیے کوئٹہ میں ہو یا کراچی میں بڑے آسانی سے بن جاتے ہیں ، کہی یہ کوئی سازش تو نہیں ، پختونوں کے خلاف ؟۔کراچی میں پختونوں کو شناختی کارڈ بنانے کی دوشواریا ں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں ، اور ہمارے پختون لیڈران ا س مسئلے پر یک دم خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کو کراچی کی پختونوں کے تکلیف کا زرا برابر احساس نہیں ہے ۔ اللہ ہی کراچی کے پختونوں کی حال پر رحم فرمائے، (آمین )