پاکستان میں سب سے بڑے میڈیا گروپ ہونے کے دعویدار ”جنگ گروپ” کے ادارے جیو نیوز نے اپنے کارکن اور معروف صحافی حامد میر پر حملے کے بعد ملکی دفاعی ادارے آئی ایس آئی پر حملے کا جو الزام عائد کیا تھا اس کے خلاف آج بھی ساری قوم میدان میں ہے۔ مہینہ ہونے کو آیا لیکن قوم کا غصہ ٹھنڈا ہونے کے بجائے ہر روز بڑھ رہا ہے، پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف تو خم ٹھونک کر میدان میں کھڑی ہے، اس کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی جیو کے خلاف بیان دے رہی ہے۔
تو ق لیگ سمیت کتنی ہی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ لگ بھگ ہر مذہبی جماعت اور ان جماعتوں کے اتحاد بھی سرگرم عمل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ عام لوگ جن کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی پارٹی یا جماعت سے نہیں ہوتا وہ بھی ملک و مسلح افواج کے عزت و وقار کے دفاع کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں کئی اور کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ جیو اور جنگ نے حامد میر پر حملے کے بعد جو رویہ اختیار کیا وہ ہر لحاظ سے ملک دشمنی اور غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
ملک کا سب سے بڑا عوامی اور ملک کی سیاسی و دینی قیادت کے ساتھ متحدہ پروگرام جماعة الدعوة نے گزشتہ ہفتے لاہور میں منعقد کیا تھا جس میں امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید نے ببانگ دہل کہا تھا کہ جیو کو اپنی غلطی تسلیم کر کے خود کو سزا کیلئے پیش کرنا چاہئے کیونکہ اس جرم کی معافی مانگ کر الزام ختم نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف قومی دفاعی ادارے آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے توسط سے ”پیمرا” کو جیو کی بندش کے حوالے سے جو خط بھیجا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
پیمرا نے جیو کو 15 دن کی مہلت دی تھی کہ وہ اپنا جواب داخل کرائے لیکن اس نے جواب داخل نہ کرایا، جس پر 9مئی کو رات دیر تک اجلاس ہوا جس میں طے یہ کرنا تھا کہ جیو پر پابندی کیسے لگائی جائے لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق پابندی لگانے کے حوالے سے حکومتی اراکین آڑے آ گئے جس پر پیمرا کی اس کمیٹی کے دو ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ ہی کر دیا۔ بائیکاٹ کرنے والے ارکان اسرار عباسی اور میاں شمس نے میڈیا کو بتایا کہ کمیٹی میں شامل حکومتی ارکان جیو کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہ رہے تھے جس پر انہوں نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
طویل اجلاس کے بعد پیمرا کی کمیٹی نے معاملہ وزارت قانون کو بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا۔ دوسری طرف اب یہ خبریں کہ پیمرا کی کمیٹی میں چار نئے ارکان کو شامل کر دیا گیا ہے جن میں ایک مظہر عارف نامی شخص جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی نجی کمپنی جیو کو مختلف سروسز مہیا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ سیفما کی رکن اور بنگلہ دیش کی شہری خاتون فوزیہ یزدانی، سپریم کورٹ میں غداری کیس میںنامزد ماروی سرمد اور روزنامہ جنگ کی کالم نگار خاتون کشور ناہید شامل ہیں۔
ان تمام اراکین کے نام، کردار اور کارناموں کی تاریخ دیکھ کر بغیر توقف کئے ہر کوئی سمجھ اور کہہ سکتا ہے کہ یہ سب جیو کو بچانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے توسط سے جو درخواست دی تھی اس میں صاف اور واضح طور پر کہا گیا تھا کہ جیو کی ساری تاریخ ہی غداری سے بھری ہوئی ہے اور بوقت ضرورت ثبوت بھی مہیا کئے جا سکتے ہیں۔ حیران کن امر دیکھئے کہ درخواست دہندگان سے یہ تو پوچھنے کی تکلیف ہی گوارہ نہیں کی گئی کہ انہیں جیو کے خلاف ثبوت دیئے جائیں۔ دوسری طرف جیو نے اپنا موقف یکسر تبدیل کرتے ہوئے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی یا پاک فوج پر کوئی الزام عائد نہیں کیا بلکہ انہوں نے حامد میر کے بھائی کا بیان نشر کیا تھا، حالانکہ ان آٹھ گھنٹوں کی جیو کی ریکارڈنگ دیکھی جائے تو معاملہ بالکل اس کے الٹ ہی نظر آئے گا جس کی طرف ساری دنیا اشارہ اور قوم احتجاج کر رہی ہے لیکن جیو کے خلاف اقدام نہیں کیا جا رہا ہے۔
Geo
یہ حقیقت اپنی جگہ بھی مسلمہ ہے کہ جیو اور جنگ کے خلاف کارروائی میں امریکہ، یورپی یونین اور بھارت سمیت عالمی طاقتیں میدان میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔ بھارت کی مرکزی پارٹی اور مستقبل کی متوقع حکمران پارٹی کے مرکزی رہنما یشونت سنہا نے تو پاکستانی وزیراعظم کو باقاعدہ خط بھی لکھ دیا کہ جیو کے خلاف کارروائی نہ کی جائے، لیکن اس بارے اتنا کہیں گے کہ حکومت اس حوالے سے بیرونی دبائو بالکل خاطر میں نہ لائے کیونکہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں کسی طور دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان خود بار بار کہتا ہے کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ یہی باقی دنیا بھی کہتی ہے لیکن عملدرآمد پاکستان کے حوالے سے کوئی نہیں کرتا۔ اس حوالے سے پاکستان کو کھل کر فیصلہ کرنا چاہئے۔
حامد میر خود کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنے پروگرام میں ماما عبدالقدیر کو بلایا اور اسے اہمیت دی تھی تو انہیں اس کے بعد دھمکیاں ملی تھیں۔ حامد میر اور جیو کو کیا یہ پتہ نہیں کہ ماما عبدالقادیر نے اسلام آباد پہنچنے پر صاف اور واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اسے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کر کے اسلام آباد آئے تو وہ اسے سنبھال لیں گے اور اس کی مدد کریں گے۔ ماما عبدالقدیر کو غیر ملکی میڈیا خصوصاً پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ادارہ بی بی سی سب سے زیادہ اور مسلسل کوریج دیتا رہا۔ یہ وہی ماما عبدالقدیر تھا کہ جس نے بی بی سی سمیت ہر جگہ کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔
ماما عبدالقدیر کے انٹرویوز کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس کے خیالات پڑھ اور دیکھ سن لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے انتہائی خوفناک سازش تھی جسے جیو نے پروان چڑھایا۔ بات اتنی ہی نہیں… بھارت کے کلچر کو پاکستان میں پروموٹ کرنے، ان کی فلموں کی پاکستان میں لانچنگ کے علاوہ ”امن کی آشا” کے ذریعے اکھنڈ بھارت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانے کیلئے دن رات تحریک سب کے سامنے ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ وہ جنگ اخبار کہ جس میں تین سطری اشتہار سینکڑوں روپے اور ایک ایک سیکنڈ کے اشتہار کے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں لیکن وہی ادارہ اپنے رنگین صفحات دن رات حدود آرڈیننس کے خلاف اپنی مہم شروع کرنے کے بعد ”امن کی آشا” اور ”ذرا سوچئے” جیسے پروگراموں کیلئے مختص کر دیتا ہے اور اپنی نشریات میں مسلسل انہیں بے تحاشا وقت دیتا ہے ہم تو حکومت سے گزارش کریں گے کہ آئی ایس آئی کے دلائل کو دیکھ کر فوری اور سخت ترین فیصلہ کرے تاکہ آئندہ کسی کو اس طرح ملک اور دفاعی اداروں کے خلاف زبان کھولنے اور دشمن کے ارادوں کو مکمل کرنے کی جرأت نہ ہو۔
جیو کے معاملے کو لٹکانے نہیں بلکہ فوری نمٹانے کی ضرورت ہے اور یہی فائدہ مند ہے۔ ہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ حامد میر اپنے اوپر حملے کے بعد سے اب تک مسلسل منظر سے غائب ہیں۔ آخر کیوں…؟ وہ اپنے ٹی وی پر آنے اور اپنے اخبار میں بھی عوام کے سامنے آنے کو تیار نہیں۔ انہیں 6گولیاں لگیں، 3ابھی تک جسم میں موجود ہیں لیکن وہ ”معیاری کالم” بھی لکھ رہے ہیں اور سامنے بھی نہیں آ رہے۔
اس معمہ کو بھی فوری حل کیا جائے، ان کا گزشتہ ہفتے چھپنے والا کالم ”کیا میں غدار ہوں” بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے پڑھ کر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ موصوف کی رائے بھی وہی ہے جو مقدمہ پیمرا میں دائر ہوا ہے اور جیو کا یہ کہنا کہ انہوں نے محض حامد میر کے بھائی کا بیان نشر کیا تھا اس کے علاوہ کچھ نہیں تو اس کی خود ہی تردید ہو جائے گی۔ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ اس مقدمہ کو فوری نمٹایا جائے اور جیو کو اس کی کماحقہ سزا دی جائے تاکہ یہ معاملہ اپنے صحیح اور منطقی انجام کو پہنچے اور قوم کا اضطراب ختم ہو۔