لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے ملک بھر میں تعلیمی مسائل کے حل کے لئے مہم کا آغاز کردیا ہے۔لاہور پریس کلب میں مرکزی ذمہ دران کے ہمراہ ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان صہیب الدین کاکا خیل نے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں برسوں سے تعلیم کا شعبہ سسک کر جی رہا ہے لیکن کوئی اس کا پْرسان حال نہیں۔نت نئی قومی تعلیمی پالیسیاں، بین الاقوامی پروگرامز برائے تعلیم، ایجوکیشن کانفرنسز اور مذاکرے اس شعبہ کے لئے کبھی آب حیات نہ بن سکے۔
ملک میں 25 ملین یعنی اڑھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جا پاتے اور جو جاتے ہیں ان میں سے تقریباً نصف پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ہاں شرح خواندگی کے اعداد و شمار کبھی تسلی بخش قرار نہیں پائے۔گذشتہ سال جاری ہونے والے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی شرح 60 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح صرف 39 فیصد ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویں جماعت کے تقریباً آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔قابل غور امر یہ ہے کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہمارے شعبہ تعلیم کا یہ عالم ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار تو کہیں نیچے ہیں۔کاکا خیل نے صوبائی اور وفاقی تعلیمی بجٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملک میں تعلیم کے بجٹ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی، س وقت پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا جائزہ لیا جائے توپنجاب میں310بلین ،خیبر میں97.5، سندھ میں144.67بلین جبکہ بلوچستان میں 38.5بلین شعبہ تعلیم کے مختص کیا گیا تھا۔ تمام صوبوں میں بجٹ کی زیادہ مقدار ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی نظر کی گئی۔پنجاب حکومت نے تو گذشتہ سالوں کی نسبت تعلیمی بجٹ میں 26فیصد کمی کی ، جبکہ صوبہ خیبر ، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ میں اضافے کا نعرہ لگانے کے باوجود اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں تعلیمی معیار میں بہتری کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان کی موجودہ خام ملکی آمدنی کا حجم 239 بلین ڈالر ہے اور پاکستان مشکل 2 فیصد تعلیمی شعبے پر خرچ کرتا ہے۔ جسکا 80 فیصد سے زائد انتظامی اخراجات اور کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق ہر ملک کو اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد شعبہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہئے۔ اس لحاظ سے حکومت کو چاہئے کہ وہ کم از کم 9 سے 10 بلین ڈالر تعلیمی پسماندگی دور کرنے پر خرچ کرے مگر وفاق اور پاکستان کے تمام صوبے اپنے مجموعی مالی وسائل کا محض چند سو ارب روپے تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ وفاقی تعلیمی بجٹ جس کااعلان گذشتہ سال کیا گیا تھا اس میں ایک ارب روپے سے زائد کی کمی کی گئی تھی اور اگر اس میں افراط زر کا بھی حساب کتاب شامل کیا جائے تو حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں گیارہ فیصد تک کی کمی کی گئی ہے۔ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا چار فیصد محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ناظم اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سال13ـ2014ء کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 80 ارب روپے کے تخمینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دوران اس تخمینے پر نظرثانی کی گئی اور 87.8 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔تاہم منگل گذشتہ سال 86.4 ارب روپے کے وفاقی تعلیمی بجٹ کا اعلان کیا گیا، جوگزشتہ سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے 1.6 فیصد کم ہے۔اقتصادی سروے 2013ـ2014ء کے مطابق افراطِ زرکی شرح 8.7 فیصد تھی، لہٰذا اگر افراطِ زرکی شرح سے تعلیمی بجٹ میں سے کٹوتی کرلی جائے تو گیارہ فیصد کی مجموعی کمی سامنے آئے گی اور یہ بجٹ حقیقی معنوں میں 78.9 ارب روپے کے برابر رہ گیا تھا۔
تعلیمی بجٹ کے اندر حقیقی معنوں میں گیارہ فیصد تک کی کمی کی گئی تھی۔اسلامی جمعیت طلبہ اس مہم کے ذریعے مقتدر حلقوں اور پالیسی ساز اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کر ے گی اور حکومت پر دبائو بڑھایا جائے گا کہ وہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کم از کم پانچ فیصد اضافہ کرے، صہیب الدین کاکا خیل نے جمعیت کی تعلیمی مہم یکساں نظام، نصاب اور زبان کے حوالے بھی خصوصی مہم چلانے کا اعلان کیا جبکہ طلبہ یونین کی بحالی بھی اسلامی جمعیت طلبہ کی اس مہم کا حصہ ہوگی۔ اس مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے قائدین، وائس چانسلرز، وزارت تعلیم، خزانہ و پلاننگ اور تعلیمی این جی اوز سے ملاقاتیں کی جائیں گی اور بھر پور نتائج کے لئے سیمینارز، آگہی واک اور دیگر سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔
عرفان حیدر، انچارج میڈیا سیل، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان 03334004327