پاکستانی احتساب

Corruption

Corruption

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
پاکستان میں حقیقی معنوں میں کبھی احتساب ہی نہیں ہوا اگر ایسا ہوتا تو پاکستانی سیاست سے کرپٹ عناصر کا صفایا ہوجاتا۔پاکستانی احتساب بااثر لوگ صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایسا عرصہ دراز سے چل رہا ہے،پاکستانی حکومتیں ہمیشہ ان باثر لوگوں کے زیر اثر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کی قدر و قیمت ویسے ہی قائم دائم رہتی ہے اگر اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ایک دفع بھی ساری سیاسی جماعتوں کا حقیقی احتساب ہوجائے تو دوبارہ کوئی بدعنوانی پنپنے کا نام ہی نہ لے، اور لفظ احتساب کو عوام بھول جائے۔احتساب کے معنی ہیں جانچ پڑتال یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف کا تفصیل تعینات سے ،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو،پھر روک ٹوک وغیرہ۔اس سے مراد خلاف حکومت یا مخرب اخلاق اظہار خیال پر سیاسی پابندی ہے۔یہ قدیم یونانی طریقہ ہے جو رد و بدل کے بعد چل رہا ہے۔

باقی دنیا سے بڑھ کر پاکستان میں لفظ احتساب زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ہمیشہ عوام میں وہی چیز مقبول ہوتی ہے جسے وہ چاہے یعنی عوام عرصہ دراز سے حقیقی احتساب چاہتی ہے۔مگر افسوس کہ عوام کو احتساب کی تعریف و مفہوم معلوم ہی نہیں اسی لئے ہر دفع انہیں بے وقوف بنایا جاتا ہے۔قارئین آپ کو واضح بتاتا چلوں کہ جو عرصہ دراز سے پاکستان میں احتساب کی روایت پھل پھول رہی ہے وہ صرف موسمی ہے۔یعنی موسمی احتسابی روایت کے پس پردہ کچھ عناصر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔پاکستانی تاریخ سے باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسے احتساب صرف مفادات کے برعکس اور ٹارگٹڈ طور پر کیا گیا۔اگر ایک بار بھی حقیقی احتساب ہوجاتا تو دوبارہ بار بار احتساب کی نوبت ہی نہ آتی۔یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان میں ہونے والے احتسابوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیسی فضول باتیں کر رہا ہوں ،مگر افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔پاکستان میں متعدد بار احتساب کا رونا رویا گیا اور متعدد بار احتساب ہوا بھی مگر صرف وقتی و ٹارگٹڈ طور پر۔ایسے احتسابات کے بعد بھی پاکستان وہی پرانے طرز پر چل رہا ہے ،کرپشن بڑھ رہی ہے نانصافی قائم ہے۔

بدلا ہے تو صرف اور صرف مفادات حاصل کرنے کا طریقہ بدلا ہے۔مفادات کی خاطر ایسے نت نئے قوانین و طریقے رائج کئے گئے کہ ملک کی دھجیاں اڑتی رہیں۔ملکی خود مختاری و سلامتی کو پس پردہ ڈال کر حکومتوں و اداروں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ملک ایک بار پھر احتساب کی فضا سے لبالب ہے۔ملکی سیاست کے سب سے بااثر اور وزیراعظم احتساب کی فضا کے زیر گردش ہیں۔عوام کے مطابق ملک میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔جلد حکومت کا تختہ الٹ کر اگلے الکشنز میں پی ٹی آئی بر سر اقتدار آنے والی ہے جو ملک کے قرض ختم کردے گی اور ملکی خودمختاری کو بحال و مستحکم کرے گی۔مگر میرے ملک کی بھلی عوام ہر بار کی طرح پھر بھول میں ہے نہیں جانتے کہ پس پردہ طاقتیں کیا چاہتی ہیں اور ملک کس طرف جا رہا ہے یقینی طور پر افراتفری کا غلبہ قائم کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کو روکا جا سکے۔چند سالوں سے ملکی سیاست پر نظر جمائے ہوئے ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان پر حکومتوں سے زیادہ اداروں کا کنٹرول ہے۔

میرے مطابق ملکی حکومتیں اسٹبلشمنٹ کے زیر اثر ہوتی ہیں چاہے وہ ملکی ہو یا انٹرنیشنل میرے خیال سے(آپ کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے) بلکہ مختلف تجزیہ کاروں کا بھی یہی نظریہ ہے مگر کہنے سے ڈرتے ہیں کہ جو اسٹبلشمنٹ و ایجنسیوں کے زیر سایہ رہا اسے حکومت عطا کر دی گئی اس کے بعد جس نے ان باثر لوگوں کے مفادات کو یاد رکھا اس نے اپنی مدت پوری کی اور جس نے انکے مفادات کو پس پردہ ڈال کر ملکی مفادات کو ترجیح دی اس کو حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ہم لوگوں کا بھی عالم دیکھئے کہ ہم جانتے ہوئے بھی ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں کہ انہوں نے کرپشن کرنی ہے۔کرپٹ لوگوں کو ایوانوں تک ہم خود پہنچاتے ہیں۔یہی ہمارا المیہ ہے۔شاید کچھ عناصر عین وقت ہمارے ذہن کو کنٹرول کر کے ہم سے یہ سب کرواتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس بار تو ہم پہلے سے زیادہ بالغ ہوگئے ہیں اور بہتری کی سمجھ رکھتے ہیں ہم آزاد ہیں اور بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں ۔مگر ہم اپنی آزادی میں بھی غلطی پر ہوتے ہیں ہمیں ٹریپ کیا جاتا ہے مختلف طریقوں سے ہمارے زہنوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے،اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی ہمیشہ کی طرح اپنی غلامی کا سودہ کر لیتے ہیں شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔آخر ایسا کیوں ہے؟ سب سے بڑی وجہ ہماری خودمختاری،یعنی عرصہ دراز سے ہماری خودمختاری کا سودہ ہمارے آبائو اجداد نے جانے انجانے میں کیا تھا اور آج ہمارے پاس کوئی بہتر رستہ ہی نہیں۔خیر یہ بااثر عناصر کی برسوں پہلے پلاننگ ، ہمارے لیڈران کے لالچ اور ہمارے بزرگوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ہم بھی موجودہ دور میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں ،کیوں بحثیت قوم ہم کبھی ایک پلیٹ فارم پر متفق ہی نہیں ہوئے؟۔یا پھر مختلف عناصر ہمیںاصل نظریات سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

خیر کچھ تو ہے جس کی بدولت ہم نا چاہتے ہوئے بھی خودمختاری کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ خودمختاری میں ہی بہتری و سلامتی ہے۔قارئین جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملکی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر یونہی حکومت و اپوزیشن میں تصادم چلتا رہا تو ملک افراتفری کی زد میں آجائے گا جس سے پاکستان میں ترقی کی راہیں بند ہوں گی۔بات احتساب کی ہے تو احتساب بھی ضروری ہے مگر سب کا۔ملکی ترقی کو پس پردہ صرف ایک صورت میں ڈالا جا سکتا ہے اگر امید ہو کہ احتساب سب کا ہوگا اور ایسا احتساب ہوگا جس سے تمام کرپٹ اور سازشی بچ نہ پائیں گے۔

اگر ٹارگٹڈ اور مفاداتی احتساب ہی ہونا ہے تو کیا فائدہ کیا حاصل؟میری عوام سے گزارش ہے کہ احتساب سب کا،مکمل احتساب کی آواز اٹھائیں تاکہ ملک ایک نئے سرے سے جدوجہد شروع کرے ،جیسے چائنہ نے کی۔مفاد پرست اور زیر اثر لوگوں کا خاتمہ ہو۔کیوں نہ ہم اپنی پسند اپنی پارٹی اور پسندیدہ شخصیت کو پس پردہ ڈال ایک آواز ہو کر سب کے احتساب کا مطالبہ کریں اور ایک ہی نعرہ لگائیں احتساب سب کا۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم نئے سرے سے ملکی خود مختاری کو اولین ترجیحات میں شامل کر سکیں گے۔ورنہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر ملکی نقصان و غلامی کو فروغ دیتے رہیں گے۔آخر میں’کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر مٹھی بھر کوڑا اچھالنے سے صفائی نہیں ہوجاتی’بلکہ پورا کا پورا کوڑا ڈمپ کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی احتساب بھی کوڑا اچھالنے کے مترادف ہے۔حقیقی و مکمل احتساب کی ضرورت ہے، ورنہ یہ لوگ حکومت حاصل کرنے کے لئے بلی چوہا ہی بنتے رہیں گے۔مگر پاکستان کا کیا بنے گا؟سوچنا ہوگا!

Zulqarnain Hundal

Zulqarnain Hundal

تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
مکینیکل انجینئر۔سی ای او ،وائس آف سوسائٹی۔گوجرانوالہ