تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان کے خلاف اس وقت ملک دشمن عناصر کے ساتھ آخری جنگ جاری ہے تو دوسری جانب جنگ کے اہم منفی شعبے کے طور پر عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے سوشل میڈیا، ایف چینلز اور پاکستان مخالف اشتہاری مہم کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں ایک بار پھر فری بلوچستان کی پوسٹرز لگے ٹیکسی نمودار ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستان مخالف اشتہاری مہم جنیوا کے بعد لندن اور اب نیو یارک میں چلائی تھی۔ پاکستان کی جانب سے لندن میں جاری مذموم مہم کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن نومبر2017کے بعد گزشتہ دنوں ایک بار پھر سو کے قریب ٹیکسوں پر فری بلوچستان مذموم مہم کے پوسٹرز آویزاں کردیئے گئے ہیں۔ پاکستان مخالف قوتوں نے بھارت کی بھاری فنڈنگ کے عوض اقوام عالم کو گمراہ کرنے کیلئے مذموم اشتہاری مہم کا سہارا لیا ہوا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں بھارت نواز ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کی جانب سے لندن میں فری بلوچستان کے نام سے مذموم مہم کا آغاز کیا گیا تھا لیکن پاکستانی حکومت کے شدید احتجاج اور مئیر لندن کی مداخلت پر ٹرانسپورٹ فار لندن ٹی ایف ایل نے یکطرفہ طور پر کاروائی کرکے ٹیکسوں اور بسوں پر لگے فری بلوچستان کی پوسٹرز کو ہٹایا تھا لیکن اب ایک بار پھر فری بلوچستان کے نام سے مذموم مہم کا آغاز کیا گیا ہے اور 100 کے قریب ٹیکسوں پر فری بلوچستان کی پوسٹرز آویزاں کئے گئے ہیں۔ اس سے قبل بھی لندن میں ٹیکسوں، بسوں اور بل بورڈز پر اس طرح کی پوسٹرز آویزاں کئے گئے تھے اور برطانیہ کے علاوہ امریکہ کے شہر نیویارک میں بھی 100 کے قریب ٹیکسیوں پر فری بلوچستان کی پوسڑز لگائے گئے تھے اور نیو یارک کے معروف ٹائمز اسکوائر پر بھی بل بورڈز پر فری بلوچستان کی بل بورڈز آویزاں کرکے دنیا کو بلوچستان میں جاری ریاست کی امن کے قائم کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس مذموم مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں 72برس کے پروفیسر اکٹر ظفر عارف کی موت کو آڑ بنا کر امریکی دارالحکومت میں بلوچستان طرز کی کراچی فری کے نام مذموم کا آغاز کیا گیا اور امریکی اخبار میں چار صفحوں پر مشتمل منفی پروپیگنڈے پرخصوصی سپلیمنٹ بھی شائع اور ہینڈ بل بھی تقسیم کروائے گئے۔
امریکہ کے دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ٹیکسیوں پرفری کراچی کے نام سے اشتہارات کی مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ مہم ایسے وقت شروع کی گئی جب کراچی میں یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف کی لاش کراچی کے مضافاتی علاقے الیاس گوٹھ ابراہیم حیدری میں ملی۔ پاکستان کے مخالف اور مملکت کے خلاف بیانات دینے والے ایک لندن گروپ کے سربراہ سے بظاہر علیحدگی اختیار کرکے سابق اہم عہدے دار ندیم نصرت جو برطانیہ اور امریکی شہریت رکھتے ہیں، انھوں نے پاکستان مخالف اشتہاری مہم کی قیادت سنبھال کر پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف کی آڑ میں ریاستی اداروں پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور متوفی کو قتل قرار دیا گیا۔ جبکہ جناح ہسپتال کی ڈائرکٹر سیمی جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں مردہ حالت میں لایا گیا ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں، تاہم پوسٹ مارٹم کے بعد مزید صورتحال واضح ہوگی۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی لاش وصول کرنے کے لیے ان کے بھائی زعیم عارف جناح ہپستال گئے جہاں انہوں نے بی بی سی کو بتایا انھوں نے لاش دیکھی ہے بظاہر تشدد کا کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ کراچی میں لاشوں پر کی سیاست کرنے کی روش بعض عناصر کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف نے ایسے وقت میں ایک ایسی تنظیم میں شمولیت کی جب اسی لسانی گروہ کے سرکردہ اور اہم رہنماؤں نے اپنی بانی کے پاکستان مخالف اشتعال انگیز تقریر سے لاتعلق کا اعلان کرتے ہوئے اپنا جداگانہ تشخص بنانے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں۔ پاکستان مخالف اشتہاری مذموم سازش بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ پر شروع کی گئی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بد نام زمانہ بھارتی ’ را ‘ ایجنسی کے دہشت گردوں نے پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جہاں قانون نافذ کرنے والے ادروں نے امن کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی میں بھی امریکی تھنک ٹینک کے علاوہ بعض یورپی ممالک پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کو ہانگ کانگ کی طرز پر علیحدہ ملک بنانے کی سازش کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان مخالف اشتہاری مذموم چلانے کیلئے بھارتی ایجنٹس اپنے سہولت کاروں کی مدد سے پاکستان کو کمزور و بد نام کرنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کررہے ہیں۔جنیوا، لندن واشنگٹن ڈی سی اور نیو یارک جیسے شہروں میں مہنگی ترین مہم چلانا آسان کام نہیں ہے۔یقیناََ اس کی سرپرستی ملک دشمن ممالک اپنے خریدے گئے غلاموں کی مدد اور بھاری فنڈنگ کررہے ہیں۔اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ نام نہاد قوم پرستوں نے بیرونی آقاؤں کی ایما پر جہاں بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اورسندھ میں انتشار و انارکی پیدا کرنے کی مذموم سازش کیں۔
بظاہرامریکا میں پاکستان کے خلاف شروع ہونے والی حالیہ اشتہاری مہم کے بعد واشنگٹن نے اسلام آباد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ملک کی خود مختاری پر حملہ کرنے والی کسی بھی تنظیم کی حمایت نہیں کرے گا۔واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معاملہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اٹھایا جہاں انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی خود مختاری اور اس کے اندرونی معاملات کی ہمیشہ کی طرح حمایت جاری رکھی جائے گی۔انہوں نے واضح کیا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ الیس ویلز نے اسلام آباد کے اپنے حالیہ دورے کے دوران بھی پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکا پاکستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔سفیر کا کہنا تھا کہ کچھ منفی پوسٹرز اور بل بورڈز کو نیو یارک میں دیکھا گیا ہے جن میں سے چند ٹیکسیوں پر بھی لگائے گئے تھے تاہم پاکستان کی جانب سے احتجاج کیے جانے کے بعد انہیں ہٹایا جاچکا ہے جبکہ واشنگٹن میں بھی کچھ ٹیکسیوں پر اسی طرح کے اشتہارات دیکھے گئے تھے جو کچھ ہی عرصے میں غائب ہوگئے تھے۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس معاملے کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور دیگر حکومتی اداروں میں اٹھاتے ہوئے انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے جس پر امریکا نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ اس منفی مہم کے پیچھے تنظیموں کو امریکی ایجنسیوں کی جانب سے حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ عناصر امریکا کے آزادی اظہار رائے کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسی طرح کی ایک اشتہاری مہم کو اس سے قبل لندن اور جنیوا میں بھی دیکھا گیا جسے پاکستان روکنے میں کامیاب رہا تھا۔پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ اس پروپیگینڈے کے پیچھے ملوث افراد کی کوئی آواز نہیں اور انہیں پاکستان اور نہ ہی دیگر ممالک میں کوئی حمایت حاصل ہے۔ان خفیہ کاموں کے پیچھے چھپے ہاتھوں کی نشاندہی کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ ایسے کام کرنے والے افراد امریکا میں نہیں بلکہ ان کا تعلق ہمارے مشرقی پڑوسی سے ہے۔بعد ازاں جمعرات (18 جنوری) کو امریکا کے مقامی اخبار روزنامہ ‘دی واشنگٹن ٹائمز’ کی جانب سے اس کی اشاعت کے ساتھ ایک لفافہ بھی تقسیم کیا گیا تھا جس میں ’آزاد کراچی‘ کا مطالبہ دہرایا گیا تھا۔یاد رہے کہ آزاد بلوچستان کی مہم لندن اور جنیوا سے امریکا آئی تھی جسے نجی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کلیئر چینل آؤٹ ڈور کی جانب سے چلایا جارہا تھا۔فلاحی کاموں کیلئے شہرت رکھنے والے پاکستان نژاد امریکی بزنس مین کا کہنا تھا کہ ایک بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو اس کام کے لیے خریدنے میں بہت زیادہ پیسے درکار ہوتے ہیں اور کوئی تو یہ پیسہ فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا میں وطن عزیر کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا مہم کی بھارت و افغان گٹھ جوڑ کی نئی سازش بھی سامنے آئی ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے 15 پشتو ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی نشریات قبائلی علاقوں تک پہنچا نا شروع کی ہوئی ہیں۔جو پاک۔افغانستان سرحد کے قریب کھولے گئے سپین غر،شرق ، دورگین غگ ، صلح، اور دیگر ریڈیو اسٹیشنز سے عظیم پختونخونستان، کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان شاخ کی ریڈیو نشریات’ خلافت غلگ ‘ پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سنی جا سکتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی بھارتی ایف ایم چینل پر آل انڈیا ریڈیو کے ادارے کا ہندی سے پشتو زبان میں ترجمہ کرکے افغانستان میں بھارت کے قائم کردہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے قبائلی علاقوں میں پہنچایا جارہا ہے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ان ایف ایم پاکستان دشمن ریڈیو اسٹیشنز میں خیبر پختونخوا میں رونما ہونے والے واقعات کو ’ لوئر پختونخوا اور افغانستان میں ہونے والے واقعات کو ’ اپر پختونخوا ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں ریاست کے خلاف نفرت انگیز اثرات بڑھانے کیلئے افغانستان میں ایف ایم ریڈیو کے 70نیٹ ورک قائم رکھے ہوئے ہیں، جس میں سے15ایف ایم ریڈیو کی نشریات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں با آسانی سنی جا سکتی ہیں۔مہیا تفصیلات کے مطابق فاٹا سیکرٹریٹ نے 2005اور2006میں امریکہ کے ادارے یو ایس اے ایڈ کی مالی مدد سے قبائلی علاقوں وانا، میرانشاہ اور جمرود میں 4پشتو ایف ایم ایڈیو اسٹیشن قائم کئے تھے جس کا مقصد شدت پسندوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے تاثرکو زائل کرنا تھا۔2009میں شدت پسندوں نے وانا میں قائم ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کو دھماکوں سے اڑا دیا تھا جبکہ2013میں یو ایس اے آئی ڈی کی جانب سے فنڈ نہ ملنے کے سبب تین ایف ایم ریڈیو اسٹیشن بند کرنا پڑے تھے۔مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریاتی سنگل نہیں آتے جس کی وجہ سے قبائلی دور دراز علاقوں میں بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ سے بنے نیٹ ورک کو روکنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ افغانستان میں قائم نیٹ ورک کے ذریعے ان ایف ایم ریڈیو نشریات میں ایک چینل سے “عظیم پختونستان “کی مذموم مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
نومبر2015میں داعش خراسان شاخ نے افغان صو بے ننگرہار میں ایف ایم نشریات شروع کی تھی جو پاک۔افغان سرحد کے علاقوں میں صاف سنی جا سکتی ہے۔ مہمند ایجنسی کے مقامی افراد کا کہنا تھا کہ نشریات کا آغاز عموماََ شام کے وقت ہوتا ہے اور ایک سے دو گھنٹے تک نشریات جاری رہتی ہیں۔مقامی افراد کے مطابق نشریات پشتو زبان میں ہوتی ہیں جس میں جنگی ترانے، جہادی گیت اور تقاریر کے علاقہ بعض عربی ترانے بھی نشر کئے جاتے ہیں۔افغانستان کے صوبے ننگرہار کے علاوہ صوبہ کنڑ میں بھی ’ خلافت ریڈیو ‘ کا دائرہ کار پھیل چکا ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیمراکے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک افغانستان کی حدود میں قائم کئے گئے ہیں جب کے ٹرانسمیٹر سات ہزار فٹ بلندی پر ہونے کے باعث دور دور تک نشریات سنائی دیتی ہیں۔ماہرین کے مطابق ایک طاقت ور ٹرانسمیٹر سے لیس ایف ایم چینل کی نشریات 50سے60 کلو میٹر کے دائرے میں سنی جا سکتی ہیں نیز اس کے علاوہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن موبائل گاڑی میں بھی قائم ہوتے ہیں جو مسلسل اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔شدت پسند تنظیم اپنے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے نوجوانوں کو داعش میں بھرتی کیلئے بھی ترغیب دیتی ہے۔ صوبہ ننگرہار کے مقامی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ داعش اپنے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے اپنی نشریات کررہی ہے جسے پورے علاقے میں سنا جاسکتا ہے۔قبائلی علاقوں میں ایف ایم ریٖڈیو مقامی افراد تک اطلاعات تک رسائل کا واحد ذریعہ ہے۔قبائلی علاقے میں شرح خواندگی کم اور اخبارات تک با آسانی رسائی نہ ہونے کے علاوہ انٹر نیٹ، کیبل اور ٹی وی سے دورہونا بھی ایک اہم سبب ہے۔ بعض علاقوں میں ٹی وی دیکھنا گناہ بھی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں ایف ایم ریڈیو کی اہمیت مزید بڑھ جا تی ہے۔قبائلی علاقوں کی بڑی تعداد اطلاعات تک رسائی کے لئے ریڈیو کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور ریڈیو پر بات کرنے والوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ تصور کیا جاتا ہے۔حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ہر ضلع میں متعدد ایف ایم چینلز اپنی نشریات پیش کررہے ہیں۔ دعویٰ کے مطابق عسکریت پسند 100سے زائد ایف ایم چینلز اپنے پروپیگنڈوں کے لئے استعمال کرتے تھے جیسے حکومت نے آپریشن کے ذریعے ختم کیا۔ایف ایم ریڈیو قبائلی علاقوں میں اطلاعات تک رسائی کا سب سے موثر ذریعہ ہے کیونکہ حکومتی ریڈیو کے مقابلے میں صرف مخصوص پروپیگنڈے کے بجائے بین الاقوامی خبریں، تبصرے اور معلومات بھی عوام تک پہنچتے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملنے والی تشویش ناک اطلاعات کا سدباب کئے جانا انتہائی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستانی افواج نے ایک کاروائی میں ایک ایسے ہی ایف ایم ریڈیو کو تباہ کیا جو پاکستان کے خلاف زہریلی پروپیگنڈا مہم کررہا تھا ۔ بھارتی سازش کے ان مذموم عزائم کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف میڈیا پروپیگنڈا کے اطلاعات تشویش ناک ہیں۔ ماضی میں عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے ایف ایم ریڈیو کا منفی استعمال کیا گیا تھا جس سے عوام میں جہاں خوف و ہراس پھیلا تو دوسری جانب حکومتی خشک خبروں اور روایتی انداز کی بنا پر رائے عامہ بھی متاثر ہوچکی تھی۔ کالعدم تنظیمیں جہاں اپنے پروپیگنڈوں کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب ان ہی سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ سے ریڈیو چینلز پروگراموں کی تفاصل بھی جاری کی جاتی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کی جانب سے شدت پسندوں کی تربیت اور تقاریر سمیت مختلف ویڈیوز بھی ڈاؤن لوڈ کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان نسل میں ریاست کی جانب سے کی جانے والی کامیاب کوششوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے کئی ایسے اکاؤنٹس کو حساس ادارے بند کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن شدت پسند فوراََ ہی بیک اپ اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے پروپیگنڈے کو جاری رکھتے ہیں۔پاکستان کے خلاف بھارت نے دنیا کے اہم ممالک میں وقتاََ فوقتاََ فری بلوچستان کے نام سے مذموم مہم جاری رکھی ہوئی ہے تو دوسری جانب پاک۔ افغان سرحد پر افغانستان کی سر زمین میں قائم ایف ایم ریڈیو چینلز کی وجہ سے پاکستانی عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔افغانستان کی سرزمین میں کالعدم جماعتوں کے ٹھکانے قائم ہیں۔ پاکستانی اداروں نے آپریشن ضرب وعضب و آپریشن رد الفساد کے بعد شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے وہ فرار ہو کر افغانستان میں ٹھکانے بنا چکے ہیں۔ جہاں سے شدت پسند عناصر 2600کلو میٹر طویل و گنجلک بارڈر کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں تو دوسری جانب میڈیا کے ذریعے بھی پاکستان کے خلاف زہریلے مہم شروع کی ہوئی ہے۔ جس سے بچاؤ کیلئے ریاستی اداروں کو سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایف ایم ریڈیو ایک سستا، سہل اور ہر شخص تک رسائی کا اہم ترین ذریعہ ہے اس کے علاوہ مقامی زبان میں منفی پروپیگنڈوں کے پرچار کے باعث نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں استعمال ہو رہی ہے اس لئے حکومت کو شدت پسندوں کے اس اہم محاذ پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔قبائلی علاقوں کے مقامی افراد اور صحافیوں کی جانب سے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ دور افتادہ علاقوں میں جہاں ابلاغ کی جدید ترین سہولیات کو گناہ سمجھا جاتا ہو اور بیشتر علاقوں میں سہولت بھی موجود نہ ہو اس وجہ سے شدت پسندوں کے خلاف کئے جانے والے آپریشنز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ریاست جہاں وطن عزیز کو شدت پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوششوں میں کامیاب ہو رہی ہے وہاں اس اہم محاذ پر بھی موثر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے جس پر وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقوں میں منظم اور مربوط انداز میں کام نہیں کیا جارہا۔عدم توجہ سے جہاں شدت پسندی کے خلاف نظریاتی جنگ متاثر ہوسکتی ہے وہاں اس بات کا خدشہ بھی بہ اتم رہتا ہے کہ منفی پروپیگنڈوں سے تمام محنت اکارات چلی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے قبائلی عوام میں اطلاعات کی سہل رسائی کے موثر ہتھیار کے منفی پروپیگنڈے کے خاتمے کے لئے مزید اقدامات کرکے حقیقی صورتحال سے آگاہ کریں۔
پاکستان اس وقت عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ دشمن کی کئی جانب سے کئی محاذ بیک وقت کھولے گئے ہیں۔ مملکت کی شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ مشرقی سرحدوں پر بھی ملک دشمن قوتیں اپنا سازشوں میں مسلسل اضافہ کررہی ہیں۔ اس نازک صورتحال میں پاکستان کی عوام کو اتحاد اور سیاسی جماعتوں کو ملک کی بقا و سلامتی کیلئے مثبت کردار ادا کرنے لئے سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔ سیاسی گرما گرمی میں عوام و ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ یہ وقت سیاسی قلابازیوں کا نہیں بلکہ قومی اتحاد و اتفاق کی مصمم دیوار بننے کا ہے۔