بھارت کی سرحدی بدمعاشی کا احوال اور حل

Indian Army

Indian Army

تحریر:علی عمران شاہین

خبر سن اور پڑھ کر حیرت زدہ ہوں کہ بھارت کی بدمعاشی اس حد تک بھی بڑھ رہی ہے۔ بھارتی فوج نے شکر گڑھ کے علاقے میں پاک سرحد پر فائرنگ کر کے ایک پاکستانی نوجوان کسان کو گرایا ،پھر اسے اٹھایا اور اپنی حدود میں لے جا کر شہید بھی کر دیا۔جب اس ہمارے پیارے شہری کی لاش واپسی کا معاملہ سامنے آیاتو رینجرز کو بی ایس ایف کے ساتھ کتنی ہی فیگ میٹنگز کرنا پڑیں پھر جا کر ہمیں شہید توقیر کا جسد خاکی ملا۔کتنے ہفتے بیتے کہ بھارت پاکستان پر گولہ باری اور گولی باری کو ایک مشغلہ بنائے ہوئے ہے تو پاکستان میںہمہ وقت بھارت کی محبت کا دم بھرنے اوراترتی چڑھتی سانس کے ساتھ اسکی خیر مانگنے والے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔اب انہیں نہ تو اپنے شہید ہم وطن دکھائی دیتے ہیں

نہ ویران ہونے والے بیسیوں دیہات اور ان کے اجڑے ہزارہا مکین جو اپنے بچوں کو سینوں سے چمٹائے سرحدی علاقے چھوڑ کر پیچھے آنے پر مجبور ہیں۔چندہی روز پہلے میں ذاتی طور پر سیالکوٹ کے ان سرحدی دیہاتوں میں موجود تھا جہاں کے لوگ بھارتی گولہ باری کا سامنا کر کے ہمیں سکون کے ساتھ سونے جاگنے اور اطمینان کے ساتھ کاروبار زندگی جاری رکھنے کی قربانی دے رہے ہیں۔وہاں کے کسان اپنے جانوروں کے ریوڑ لے کر فائرنگ اور گولہ باری کی حد سے پیچھے ہٹ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ انسان کو اگر اپنے گھر بار سے ایک دن دور گزارنا پڑ جائے تو کتنی مشکل ہوتی ہے؟

یہ لوگ گھروں سے دور اپنا گھر کیسے چلاتے ،عورتوں بچوں کو سنبھالتے اورجانورپالتے ہوں گے؟میں علاقہ چپڑاڑ کی ایک گلی میں کھڑا تھا جہاں ایک گھر کی دیوار مارٹر گولوں سے چھلنی تھی تو گلی اور نالی میں تازہ خون بکھراپڑا تھا۔یہاں کے باسی بتا رہے تھے کہ کل ہی رات بھارتی فوج نے مارٹر گولے پھینکے تواس گھر کا رہنے والا نوجوان محمد آصف گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا ،گولے کی زد میں آکر یہاں شہید ہو گیا۔یہ اسی کا تازہ بتازہ خون ہے۔ساتھ ہی گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک جلی چارپائی ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑی ہے۔گھر ایک دیوار تباہ ہے تو دوسری طرف صحن میں خون بکھرا پڑا تھا۔یہاں کے لوگ بتانے لگے ۔گزشتہ شام بھارتی فوج نے جو گولے پھینکے تھے ان میں سے ایک اسی گھر میں گرا تھا۔یہاں صحن میں 70سالہ بزرگ محمد حسین عرف بابا طوطی لیٹے تھے

مارٹر گولے نے ان کے ٹکڑے کر دئیے اور وہ یہیں شہید ہو گئے۔گھر اب ویران پڑا اور مکین تدفین کے بعد یہاں سے جا چکے ہیں۔ساتھ ہی واقع گائوں رامپور پہنچے تو دیکھا کہ ساری ہنستی بستی آبادی اب سائیں سائیں کر رہی ہے۔ہر طرف موت کا سا سناٹا ہے۔بتایا کہ یہاں ایک دن پہلے پھینکے جانے والے بھارتی مارٹر گولوںسے ایک ہی جگہ بندھی 7بھینسیںہلاک ہو گئیں۔پرسکوں ماحول میں شہروں کی جگمگ کرتی روشنیوں میں رہنے والے کیا جانیں کہ ایک زمیندار کی اگر اتنی بھینسیں مر جائیں تو اس پر کیا بیتتی ہے؟ان کا نقصان کون پورا کرے گا؟

جن کے گھر تباہ ہوئے اور ہو رہے ہیںوہ غریب اب گھروندے کیسے بنائیں گے؟بھارت سے پیار پینگیں ڈالنے والوں کو ایک بار یہاں ضرور آنا چاہیے تا کہ زرق برق ہوٹلوں کے یخ بستہ ہالوں میںکیمروں کے سامنے بیٹھ کر پیار و محبت کے گیت گاتے ہو ئے انہیں کچھ تو احساس ہو کہ ان کی ان بے تکی اور فارن پیڈ چاہتوں اور آرزئوں کی قیمت کون کون اور کیسے کیسے ادا کر رہا ہے؟

تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ گولہ باری اور فائرنگ سے بھارت ایک ایسا مذموم مقصد پورا کرنا چاہتا ہے جو وہ اس سے پہلے مکمل نہیں کر سکا ۔بھارت نے پرویز مشر ف کی عنایتوں سے 2003ء میں ہونے والی جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر ہی تو ساری کنٹرول لائن پر زبردست باڑ لگا کر اسے دنیا کا سخت ترین سکیورٹی زون بنا دیا تھا ۔ بھارت اس بار بھی گولہ باری مزید بڑے اور مضبوط مورچے بنا کر کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد بنانے کیلئے کر رہا ہے جو ایک گہری سازش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چور مچائے شور کا مانند دن رات چیخ پکار کر رہا ہے کہ پاکستان اس پر گولہ باری اور فائرنگ کر رہا ہے تاکہ کشمیری مجاہدین کو سرحد پار دھکیلا جا سکے جبکہ پاکستان نے اب کھل کر کہا ہے کہ بھارت سیالکوٹ سیکٹر میں ورکنگ بائونڈری پر مزید انتہائی مضبوط مورچے تعمیر کر رہا ہے، جن کی تعمیر کی وہ اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی وہ بھارت کو ایسا کرنے دیں گے۔

Pakistan

Pakistan

بھارت اس وقت پاکستان کے ساتھ دو محاذوں پر براہ راست الجھا ہوا ہے اور سخت پریشان ہے۔ ایک گولہ باری اور فائرنگ’ تو دوسرا پاکستان اور کشمیری قوم کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر زبردست تحریک اور عالمی دبائو۔ حکومت پاکستان اس وقت مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح کے طور پر جس طرح عالمی سطح پر پیش کر رہی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا تھا اور اب تک ان کی اس حوالے سے دلچسپی بڑھتی نظر آتی ہے۔

حالیہ کشیدگی کے دوران میں بھی انہوں نے اس پر اپنا موقف مزید آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر عالمی فورمز اور باہر کی دنیا کے ساتھ جو روابط استوار کئے ہیں، بھارت ان سے زبردست بوکھلایا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے تو بھارتی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر دبائو نہ ڈالے بلکہ جو بھی مسئلہ ہے اسے باہم بات چیت سے حل کیا جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے مؤقف کو ایک بار پھردہراتے ہوئے شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کا نام لیا۔ دوسری طرف کشمیری قوم نے جو کئی ماہ کی تیاری کے بعد 26 اکتوبر کو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں آزادی ملین مارچ کیا اور برطانوی وزیراعظم کے دفتر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے یادداشت پیش کی، اس پر بھی بھارت سخت سیخ پا ہے۔

اس مارچ کو رکوانے کیلئے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی 67سالہ تاریخ تحریک آزادی میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خطہ کشمیر سے باہر کشمیر کے لوگوں نے اپنی آزادی کیلئے اتنا بڑا پروگرام منعقد کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کے کشمیری اب اپنے مقبوضہ خطے کے عوام کے درد میں اس سطح تک شریک ہو چکے ہیں جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔

یہ وقت پاکستان اور پاکستان کے اہل اقتدار و اختیار کے لئے بھی اہم ہے کہ وہ ہم پر دبائو بڑھانے کا ہتھکنڈہ استعمال کرنے والے بھارت پرجوابی دبائو بڑھائیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ مجاہدین بھی اپنے حملے بڑھا رہے ہیں۔ بھارت کل تک الزام لگاتا تھا کہ مجاہدین پاکستان سے آتے ہیں لیکن آج بھی مقامی کشمیری اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اتنے بڑے پیمانے پر خون کے نذرانے پیش کر رہے ہیں کہ بھارت کے پاس ایسا کوئی جواب اور جواز ہی نہیں بچا۔

بھارت کی 8لاکھ ریگولر اور 2لاکھ پیراملٹری فورسز کوا گر تنہا کشمیری قوم نتھ ڈال کر بے بس کر سکتی ہے تو ذرا سوچئے کہ اگر مظلوم 27 کروڑ بھارتی مسلمان اس میدان میں اتر آئے تو بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کون بچا سکے گا؟ بھارت کے ہندوئوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ انہوں نے تاریخ میں کبھی کوئی ملک فتح نہیں کیا اور دنیا میں ان کی واحد ریاست بھارت ہی ہے۔ اگر اس کا وجود مٹ گیا تو دنیا میں کوئی ہندو نہیں رہے گا۔ وہ اسی بنیاد پر تعصب اور دشمنی پھیلا کر مسلمانوں کے خلاف میدان سجائے ہوئے ہیں۔ انہیں سوائے مسلمانوں کے دوسرا کوئی مقابل نظر نہیں آتا۔ بھارت میں اس وقت 100سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ملک کا نصف کے قریب حصہ آزادی پسندوں کے مکمل نرغے میں ہے

جہاں بھارت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ جس ملک میں 40کروڑ لوگوں کے پاس بجلی کا نام و نشان نہ ہو، وہاں غربت و پسماندگی کی حالت کیا ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو ساری دنیا نے مل کر سہارا دے رکھا ہے کیونکہ اسے براعظم ایشیا میں پاکستان اور چین کے مقابلے میں توازن قائم رکھنے کیلئے مضبوط و توانا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کو اگر کوئی بدلنے کی طاقت و سکت رکھتا ہے تو وہ بھارتی مسلمان ہیں اور اہل پاکستان ہیں جنہوں نے اب عزت یا ذلت کے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین