اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی تنظیموں نے پولیو اور خسرہ جیسی بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے منصوبے معطل کر تے ہوئے فی الحال کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی ہدایت دی ہے۔ تاہم ماہرین دیگر متعدی بیماریوں میں اضافے سے خبردار کر رہے ہیں۔
ماہرین صحت نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی صحت کی تنظیموں کے کورونا وائرس کے وبائی مرض کے دوران بڑے پیمانے پر حفاظتی ٹیکوں کی مہموں کو معطل کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں پولیو اور دیگر دوسری انتہائی متعدی بیماریوں کی ایک نئی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔
جنیوا میں واقع عالمی سطح پر انسداد پولیو کے لیے سرگرم تنظیم ‘گلوبل پولیو اریڈیکیشن انیشئیٹو‘ )جی پی ای آئی( نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے مختلف منصوبوں کو دنیا بھر میں معطل کرنے کی تجویز پیش کر رکھی ہے، تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ آج ہفتہ نو مئی تک، پاکستان میں 27،474 کورونا وائرس کے کیسز اور اس مہلک وائرس سے 618 اموات کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
اس کے باوجود پاکستان میں صحت کے ماہرین حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہموں کو معطل کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل قیصر سجاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مجھے خوف ہے کہ دوسری بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس کے بعد کی صورت حال مزید خراب ہوجائے گی۔‘‘سجاد نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نظام صحت پہلے سے بہت زیادہ دباؤ میں ہے اور مسلسل تیزی سے بڑھتی آبادی والے ملک میں حفاظتی ٹیکے لگانے کے پروگرامز میں تسلسل جیسے انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدی بیماریوں کی روک تھام کے تعطل اقدامات سے آنے والے مہینوں میں پاکستانی صحت کے شعبے کو ایک ‘بہت بڑا بوجھ‘ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے پاکستان اور افغانستان ایسے واحد ملک ہیں جہاں پولیو کے کیسز ابھی بھی سامنے آ رہے ہیں۔ یہ بیماری، جو بنیادی طور پر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاس طور پر ان کی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے کسی جسمانی عضو کے مفلوج ہونے کا سامنا کر سکتے ہیں۔
رواں برس 24 مارچ کو ‘جی پی ای آئی‘ نے عالمی ادارہ صحت کی توثیق اور امریکا میں بیماریوں کے روک تھام کے سینٹر برائے عالمی صحت کی منظوری کے ساتھ تمام ممالک سے کم از کم 2020ء کے ابتدائی چھ ماہ کے اواخر تک انسداد پولیو کے منصوبوں کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈبلیو ایچ او سے منسلک جی پی ای آئی کے سربراہ مشیل ظفران نے کہا، ”ہم دو خوفناک صورتحال کے مابین پھنس گئے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔۔۔ ہم کووڈ انیس کی صورتحال میں مزید خرابی کے لیے انسداد پولیو کے پروگراموں کو ذمہ دار ٹہرانا نہیں چاہتے۔‘‘
بعد ازاں 26 مارچ کو، ڈبلیو ایچ او کے اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ آف ایکسپرٹس برائے امیونائزیشن (ایس اے جی ای) نے بھی خسرہ اور یرقان سمیت دیگر بیماریوں کے لیے بڑے پیمانے پر جاری حفاظتی مہموں کو عارضی طور پر روکنے کی سفارش کر دی۔ ظفران کے مطابق انسداد پولیو مہم معطل کرنے سے جی پی ای آئی اپنے وسائل کا کووڈ انیس کے خلاف لڑائی میں مؤثر استعمال کر سکے گی اور ہزاروں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اس مہلک مرض کو روکنے میں مدد فراہم کرسکیں گے۔
کراچی میں انسداد پولیو کے پروگرام کے ایک اہلکار، احسن علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وبائی امراض کے دوران حفاظتی قطرے پلانے میں مشکلات درپیش ہو رہی ہیں۔ علی کے بقول، ”لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہم سے خوفزدہ ہو گئے ہیں کیونکہ ہم گھر گھر جاکر کام کر رہے تھے۔‘‘ علی نے خبردار کیا کہ پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے پروگرام دوبارہ شروع ہونے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے کیسز کی تعداد میں پہلے ہی اضافہ نوٹ کیا گیا، ملک میں کل 146 کیسز رپورٹ ہوئے۔ رواں برس، اب تک 47 پولیو کے کیسز درج ہوئے۔ ماہرین صحت نے متنبہ کیا ہے کہ وبائی بیماری کے مضر اثرات، جیسے کہ زندگی کو بچانے کے حفاظتی ٹیکوں کی باقاعدہ مہم میں رکاوٹ، ہزاروں بچوں کی جان خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی پی ای) کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف اپریل کےمہینے میں ہی چالیس ملین سے زائد بچے پولیو سے بچاؤ کے قطروں سے محروم ہوگئے، جن میں دیگر معمول کے حفاظتی ویکسین دینا بھی شامل ہیں۔
ظفران اور ان کے ماہرین کے گروپ نے تاہم اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ پولیو اور دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن مہم کی معطلی کے باوجود، ڈاکٹروں کو کلینکس میں معمول کے حفاظتی ٹیکوں کو جاری رکھنا چاہیے۔
پاکستان محدود مالی وسائل کی وجہ سے ابھی تک پولیو، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی سمیت متعدی بیماریوں سے نمٹنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔ متعدد پاکستانی سرکاری ایجنسیوں کے مشیر اور ماہر معاشیات اشفاق حسن خان کو اس بات کی فکر ہے کہ کورونا وائرس کا وبائی مرض ملک کے پہلے سے کمزور نظام صحت کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہا ہے۔ خان کے بقول، ”پاکستان صحت کے شعبے پر اپنی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کر رہا ہے، جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ کووڈ انیس، پولیو اور خسرہ جیسے وبائی امراض سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ،‘‘
اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال 15 لاکھ سے زیادہ افراد ایسی بیماریوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں جن کو حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے آسانی سے روکا جاسکتا ہے۔