پاکستان اس وقت نئے عمرانی معاہدے کے ساتھ ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے، جہاں سب اچھا ہے، لیکن سب اچھا ہے کہنے کے لیے سب کچھ اچھا ہونا ضروری نہیں۔ نوجوان نسل ایک ایسے پاکستان کو دیکھ رہی ہے جہاں بہت کچھ تبدیل کیا جارہا ہے۔ تبدیل ہورہا ہے۔ تبدیل ہوچکا ہے۔ تبدیلی کے اس دور کو کوئی بھی نام دے دیں، لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے، جمہوریت کے نام پر اور جمہوری چھتری کے نیچے ہورہا ہے۔ اس لیے یہ سب کچھ نیا نیا بھی لگتا ہے، ’صاف چھپتے بھی نہیں…‘ والی کیفیت بنی ہوئی ہے۔
موجودہ حکومت میں ایک بات بہت اچھی دیکھنے میں آئی کہ کابینہ کے طویل اجلاس باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی وزیراعظم سے ملاقاتیں اس تواتر کے ساتھ ہوتی ہیںکہ اب کسی کو اس پر چونکنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
وفاق کے زیر انتظام تمام ریاستی ادارے وزیراعظم کے ماتحت اور ان کے احکامات پر من و عن عمل کرتے ہیں۔ نچلی سطح سے لے کر بیورو کریسی کے اونچے پائیدان تک، وزیراعظم اور وزراء اپنی ’’مضبوط گرفت‘‘ کے ساتھ جمے ہوئے ہیں۔ ایسے مواقع بڑی قسمت والوں کو ملتے ہیں کہ جب حکومت کو کسی ادارے کے حوالے سے بار بار یقین نہ دلانا پڑتا ہو کہ وہ ایک صفحے پر ہیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ سب کچھ مشاورت سے ہورہا ہے اور جو فیصلے کیے جارہے ہیں وہ ایگزیکٹو پاور کے ساتھ ہورہے ہیں۔ کوئی ربڑ اسٹیمپ و کٹھ پتلی نہیں۔ ریاست کے تمام ستون بااختیار ہیں اور یہ سب کچھ واقعی میں اچھا ہے، کیونکہ یہ سب ’اچھے طریقے‘ سے نظر آرہا ہے۔ یہ الگ بات کہ میڈیا کو سرخ بتی کے پیچھے لگانے کا ہنر سیاستدانوں کو بھی خوب آتا ہے۔
بعض سیاست دان اپنی خبر ’’وائرل‘‘ کرنے کا گر جانتے ہیں۔ گو میڈیا اچھی طرح سمجھتا ہے کہ سیاست دان کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ ’زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بِگڑا۔‘ سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہو یا ہتھیلی پر سرسوں جمانا، ہمارے کہنہ مشق سیاست دانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، تاہم بائیں اور دائیں بازو کی سیاست تو ایسے ناپید ہورہی ہے جیسے پاکستان سے پینے کا صاف پانی۔ ارباب اختیار اس وقت اس حال میں ہیں کہ ’پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں‘ ہے۔ اب اس صورت حال میں حکومت کے لیے بڑے فیصلے و چھوٹے اقدامات بھی کرنا دشوار گزار عمل نہیں۔
اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ وزیراعظم کے تعلقات نے بھی بڑی خوشگوار فضا کا احساس دلایا ہے کہ چیف جسٹس زیر سماعت مقدمات میں جس قسم کے بھی ریمارکس دیں یا نئے پاکستان کے نئے نقشے پر کبھی اظہار ناراضی تو کبھی برہمی کریں، اداروں کے درمیان اس بات پر ضرور اتفاق ہے کہ ریاست مضبوط ہونی چاہیے۔ چھوٹی موٹی باتیں اور برتن ٹکرانے سے تھوڑا شور تو مچتا ہے لیکن اس کا اطمینان ہے، عمران خان کو کبھی اس شکوے کا موقع نہیں ملے گا کہ انہیں کسی نے ’’کام‘‘ نہیں کرنے دیا۔
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا
ان حالات میں کہ ملکی تاریخ میں ڈالر بلند ترین سطح پر ہے لیکن پھر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو پھر ایسا کیوں ممکن ہوسکتا ہے کہ حکومت اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارے۔ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ حکومت اُس ٹہنی کو کاٹے جس پر وہ خود بیٹھی ہے، لیکن اس پُرسکون ترین ماحول میں قبرستان سی خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ سب کچھ اچھا ہونے کے پیچھے خاموشی کی اصل کہانی کیا ہے، یہ سوچ کر دل دہلنے لگتا ہے کہ سب بس اچھا ہی ہو۔ لیکن یہ دل مانتا نہیں کہ سب کچھ اتنا اچھا ہے جیسا نظر آرہا ہے، کیا واقعی سب کچھ اچھا ہے کہ ہم یہ کہیں سب اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ کھلی آنکھوں سے کچھ نظر نہیں آرہا، اس لیے شترمرغ کی طرح ریت میں سر دینے اور کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے کبھی ایسا منظر بھی نظر آتا ہے کہ شمال مغربی سرحدوں پر نفرتوں کا ایسا لاوا ابل رہا ہے جس کا آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ سمندری ساحلوں پر لہریں سر پٹخ پٹخ کر اپنے وجود کا احساس دلارہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے ریت کا قلعہ موجوں کی روانی میں بہتا جارہا ہو۔
مشرق و جنوب کی جانب دیکھیں تو کہر کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ڈر اور وسوسے کو جھٹک کر بیدار ہونا بہتر لگا کیونکہ سب اچھا ہے اور ہم سب اچھا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اذہان، ہماری آنکھیں سب کچھ اچھا دیکھنا چاہتی ہیں، انہیں بُرے خواب دیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اچھے اچھے خواب دکھانا بہت ضروری ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ خواب کی تعبیریں الٹ ہوتی ہیں اور جو کچھ خواب میں دیکھا جاتا ہے وہ بس خام خیالی ہی ہوتی ہے۔ جسے یوں بھی کہا گیا کہ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، دوا نے جب نہ کام کیا۔
ان حالات میں عوام بھی سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب چکے ہیں کہ شاید اچھا ہورہا ہے، ورنہ کبھی تو چار آنے چینی کی قیمت بڑھانے پر حکومت کے خلاف ایسا احتجاج کیا جاتا تھا کہ مطلق العنان سربراہ بھی اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا، تو کبھی پٹرول کے نرخ بڑھنے پر حلیف، حریف بن جاتے اور گلی گلی میں احتجاج کرتے نظر آتے۔ یہاں بھی عمران خان کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہے کہ انہیں سڑکوں پر احتجاج کی سیاسی پریشانی کا سامنا بھی نہیں۔ یہ الگ بات کہ ایک چھوٹا سا ’’مظاہرہ‘‘ہوا تھا، لیکن جلدہی اس پر ’قابو‘ پالیا گیا، تاہم بعد میں یوٹرن کے فلسفے کا ایسا بھرپور استعمال کیا جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہم اس حقیقت کو نہ جانے کیوں فراموش کرنا چاہتے ہیں کہ ’’Positive‘‘ کے ساتھ ’’negative‘‘ بھی ہوتا ہے۔ یہ زندگی کا حصہ ہے اور جب زندگی کا جزولاینفک ہے تو اس سے چشم پوشی کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس گوبل ولیج میں ہر کس و ناکس کی رسائی دنیا کے کسی بھی حصے میں سہل ترین ہے تو پھر ہم تصویر کا ایک رخ کیسے دکھاسکتے ہیں۔
سکّے کا ایک رُخ دکھاکر ہم دوسرے رخ کو بظاہر چھپا تو سکتے ہیں لیکن وہ حقیقت کی طرح اپنا وجود رکھتا ہے اور اس سچائی کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، کیونکہ زمینی حقائق سے دور بھاگ کے یا نظر انداز کرکے اپنی نسل کو آنے والے خطرات سے بے خبر رکھنے کی ہماری کوشش انہیں بیرونی پروپیگنڈے کا باآسانی شکار بناسکتی ہے، کیونکہ ہمارے پاس انہیں بتانے کو کچھ نہیں۔ سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں خدانخواستہ پاکستان کو ’’روم‘‘ کی طرح جلتا دیکھ کر بانسری کا سہارا نہ لیا جائے کہ ’’سب اچھا ہے۔‘‘
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا