تحریر : اویس سکندر پاکستان میں صرف ایک چیز خالص ملتی ہے جس کا نام دھوکہ ہے۔ پاکستان میں دھوکہ اتنی صفائی سے دیا جاتا ہے کہ آپ وھوکے کو دنیا کی کسی بھی لیبارٹری سے چیک کروا لیں آپ کو اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ملے گی۔ آپ پاکستان کی کوئی بھی چیز دھوکے کے علاوہ لے لیں اس میں ضرور کسی نا کسی حد تک ملاوٹ ضرور ہو گی۔ اگر دھوکے کی بات کی جائے تو ہمارے ملک کے چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کو ہر موقع پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت کا 60 سے 65 فیصد انحصار زراعت پر ہے اسی طرح سے پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ دیہات میں رہنے والے لوگوں کا انحصار یا تو زراعت پر ہے یا مال مویشی پر ہے لیکن یہ اس قوم کی بدقسمتی ہے یا اللہ کی طرف سے کوئی امتحان ہے کہ ہمیں زیادہ تر تاجر حکمران ملے ہیں جو صرف اپنے تجارتی مقاصد کے لیے حکومت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے زراعت کے مختلف شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ ہماری ترقی اسی صورت میں ممکن ہے کہ زراعت کے مختلف شعبوں کو ٹھیک کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں پیش رفت کی جائے۔ ہمارے ملک کی معیشت بھی ب تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک ہماری زراعت مظبوط نہیں ہو گی۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے ارو اتنا نوازا ہے کہ ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
ہمارے ملک میں ہر طرح کی پیدا وار ہوتی ہے اور میرا نہیں خیال کی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا ہو جو ہمارے ملک کی طرح ہر معاملے میں زرخیز ہو۔ تو بات ہو رہی تھی دھوکے کی دھوکہ کسان کو ہر فصل کاشت کرنے سے پہلے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کسان اپنی مرضی سے فصل پر خرچہ کر سکتا ہے اور خرچہ بھی جتنا مرضی کر لے اسے اگلی بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ شاید میرا فصل پر کیاہوا خرچہ بھی واپس آئے گا یا نہیں۔
جناب میرا بھی تعلق زمیندار گھرانے سے ہے اور مجھے بھی اس بات کا اندازہ ہے کی کتنا مشکل ہوتا ہے ایک فصل کاشت کرنا اور اس پر محنت کرنااور اگر بندہ اپنی فصل پر خرچہ اور محنت کرے اور اسے منافع تو دور کی بات اسے خرچہ کیا بھی واپس نہ آئے تو وہ بیچارہ تو ڈوب جائے گا۔ کاشت کار کے ساتھ ایک اور بڑی زیادتی ہے کہ وہ کوئی اور کام بھی نہیں کر سکتا اسے کسی اور کام کرنے کا تجربہ بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی اور کام کر سکےایک بڑی مثال کے ساتھ واضع کرنے لگا ہوں کہ کسان کوئی اور کام کیوں نہیں کر سکتاتواس حوالے سے ایک اور مثال میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ سائنس کا ایک سوال ہے کہ کتا ہڈی کیوں چوستا ہے؟ تو اس کا جواب بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا ۔ اس کا جواب ہے کہ” کتا ہڈی اس لیے چوستا ہے کہ جب وہ اپنے منہ میں ہڈی لے کر چوستا ہے تو وہ ہڈی کتے کے منہ کو اندر سے زخمی کر دیتی ہے اور کتے کے منہ سے خون نکلتا ہے جو کتے کے منہ سے ٹپکنے والی رال کے ساتھ مل جاتا ہے اور کتا اس کو چوس کے سمجھتا ہے کہ پتہ نہیں اس نے کیا زائقہ دار چیز چوس لی ہے” اگر یہ مثال کسی کو بری لگے تو دوسری مثال لے لیں کہ عظیم مفکر سقراط نے اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پیا تھا۔ ہمرا کسان بھی زراعت میں کام کر کے اپنے ہاتھوں سے زہر کے پیالے پی رہا ہے۔
یعنی بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا کاشتکار اس لیے زمیندارہ کرتا ہے کہ کیوں کہ اسے کچھ اور کرنا نہیں آتا اس لیے اسے زمیندارہ میں فائدہ کچھ نہیں ہوتا پر وہ سمجھتا ہے کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ جناب میں بار بار یہی بات کرتا ہوں اللہ تعالی نے اس ملک کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہمیں ان نعمتوں کا استعمال کرنا چاہیے بات صرف اتنی ہے کہ ہم ان کا استعمال اپنے مفادات کے لیے کر رہے ہیں ہمیں ملک کا سوچنا چاہیے۔ ایک وقت تھا پاکستان کی کپاس پہلے نمبر پر تھی لیکن رفتہ رفتہ بہت نیچے آ گئی۔ اسی طرح ہمارے پاس بہت سے مثاالیں موجود ہیں۔ ہمارا کینو پوری دنیا میں مانا جاتا تھا لیکن ہماری نا انصافی کی وجہ سے کوئی اسے خرید نہیں رہا کیونکہ ہم پیکنگ کرتے وقت اچھا کینو اوپر لگا دیتے ہیں اور جو کینو خراب ہو جائیں وہ ہم نیچے لگا دیتے ہیںاس طرح سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ ہم اپنی اس بے ایمانی کی وجہ سے پوری دنیا میں بے عزت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بندہ کس کس چیز کی مثال دے ہر چیز تو یہاں پر دھوکہ ہے۔
دھوکے کے سوا یہاں کچھ نہیں ۔ اس کے بعد ہم اگر دودھ کی بات کریں تو بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمارے ہاں بڑے باتیں کرتے ہوئے کہتے تھے کی اللہ دودھ اور بیٹا ہر گھر کو دے اس طرح دودھ کی قدر کی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں چھوٹی سطح پر کام کرنے والوں سے دودھ انتہائی کم قیمت پر لے لیا جاتا ہے اور بعد میں اللہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے مختلف چلرز والے اور بڑی سطح پر کام کرنے والے اس دودھ کے اندر مختلف زہریلے کیمیکلز ڈالتے ہیں مثلا کھاد وغیرہ ۔ آپ سوچیں جو بھی یہ دودھ پیتا ہو گا اس کی صحت پر کیسا اثر ہوتا ہو گا۔ لیکن بات پھر وہی ہے ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ اللہ کے ہاں بھی ہمیں جواب دینا ہو گا۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ دودھ جیسی خدا کی نعمت کے ساتھ بھی دھوکہ کیا جاتا ہے اس کام سے بڑے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور فائدہ بھی اس طرح کہ وہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیںدوسری طرف چھوٹے کاشت کار جو ساتھ جانور پال رہے ہیں ان کو محنت کر کے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں پر ایک اور بات بھی قابل زکر ہے کہ یہ جو دودھ فروش ہوتے ہیں چھوٹی سطح پر کام کرنے والوں سے دودھ کم قیمت پر لے کر اور اس میں طرح طرح کے زہریلے کیمیکلز شامل کر کے طرح طرح کی ملاوٹ کرتے ہیں اور دگنی قیمت پر بیچ دیتے ہیں ۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی معیشت کو کیسے بچایا جائے کیونکہ ہمارے ملک کی معیشت صرف زراعت کے بھروسے پر ہے۔
زراعت کے شعبے میں ترقی اسی صورت میں ممکن ہے کہ کسانوں کو کھاد پر سبسڈی دی جائے سپرے سستی کی جائے تا کہ کسان کو کسی طرف سے تو سہولت ہو تا کہ ہمارا کسان سکھ کا سانس لے سکے اس لیے ضروری کہ اس معاملے میں جلد از جلد پیش رفت کی جائے کل میں ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا جس پر تحریر تھا کہ میٹرو ٹرین پر حکومت ڈیڈھ ارب روپے خرچ کر رہی ہے مجھے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ فخر ہے کہ ہمارے ملک میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں مگر ان کاموں سے لاہور کو فائدہ ہو گا ہمیں چیچہ وطنی میں بیٹھ کر کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس لیے حکومت سے درخواست ہے کہ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرے تا کہ ہمارا ملک حقیقی معنوں میں ترقی کر سکے ۔ لہذا حکومت سے استدعا ہے کہ اپنا کسان اور اپنی معیشت کو بچانے کے لیے اقدامات کرے۔ آخر میں حبیب جالب صاحب کی نظم ذہن میں آ گی جو آج کے کالم کے حوالے سے موزوں ہے جس میں چاند سے مراد زمیندار ہے۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر بے نام سے سپنے دیکھا کر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اس دیس میں اندھے حاکم ہیں نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں ہیں یہاں پہ کاروبار بہت اس دیس میں گردے بکتے ہیں کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت کچھ کا مقصد روٹی ہے وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے مغرب کا راج ہی سچا ہے یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند ہیاں نہ نکلا کر