مفکر پاکستان علامہ اقبال کا 141 واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے

Allama Iqbal

Allama Iqbal

کراچی (جیوڈیسک) ملک بھر میں آج مفکر پاکستان اور شاعر مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا 141واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔

ہر سال 9 نومبر کو پورے پاکستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے۔

مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریب منعقد ہوئی جس کے دوران پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے سلامی دی اور گارڈز کے فرائض سنبھالے، اسٹیشن کمانڈر کموڈور نعمت اللہ نے مزار پر فاتحہ خوانی کی اور پھول چھڑائے۔

علامہ اقبال کی شہرت جہاں مسلمانوں کے موجودہ دور میں مصلحانہ کردار کی تھی وہیں قیامِ پاکستان میں ایک ممتاز شخصیت کی تھی، انہوں نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کیا۔

علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جداگانہ قومیت کا احساس اُجاگر کیا اور اپنی شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا، ان کے افکار اور سوچ نے اُمید کا وہ چراغ روشن کیا جس نے نہ صرف منزل بلکہ راستے کی بھی نشاندہی کی۔

علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔

مفکر پاکستان نے شاہین کے تصور اور خودی کے فلسفہ پیش کیا، فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی اور نئے اجتماعی گروہوں کی تشکیل جیسے معاملات پر اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

یوم اقبال کے موقع پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تقاریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جس میں اقبال کے کلام اور ان کی شخصیت پر بحث کی جاتی ہے۔

اقبال کی تصانیف

اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے ‘سارے جہاں سے اچھا’ اور ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’ جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے جب کہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظموں نے خوب داد سمیٹی۔

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعات میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔

اقبال کے کلام میں سے چند اشعار کا انتخاب

1۔ انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

2۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

3۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

4۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

5۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

6۔ میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

7۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

8۔ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

9۔ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

10۔ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

یاد رہے کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے 21 اپریل 1938 کو لاہور میں وفات پائی۔