ماسوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہوتو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح قلم تیرے ہیں
اسلامی جموریہ پاکستان ایک اسلامی رفاحی ریاست ہے ۔یہ صرف دنیا کے نقشہ پر ملک نہیں بلکہ اس کی نسبتیں ” مدینہ ” سے ملتی ہے۔ اللہ پاک کا خصوصی انعام اور رسالت مآب ۖ کی نظر کرم ۔ اولیاء اللہ صوفیاء کرام اور ولی اللہ ڈاکٹر حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی کرامت ہے !افسوس کچھ لوگ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو سمجھ نہ سکے ۔ اگر ہم حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کو سمجھتے تو آپ کے نظریات کی روشنی میں اپنی پالیسی بناتے ۔ اگر ایسا کرتے تو آج اسلامی جموریہ پاکستان اسلامی ممالک کی امامت کرتا۔ ہم ڈاکٹر محمد اقبال کو سمجھتے تو آپ کی پیدائیش اور وفات کے دنسرکاری طور پر مناتے اور پورے ملک میں چھٹی کا اہتمام ماضی کی طرح کرتے ۔جو لوگ علامہ اقبال کو ولی اللہ نہیں تسلیم کرتے ان کے گوشہ گزار تاریخ کی ورق گردانی سے پیش ہے کہ 1938ئ،اپریل 20، صبح ناشتے میں دلیے کے ساتھ چائے پی ـ میاں محمد شفیع نے اخبار پڑھ کر سنوایا ـ حجام سے شیو بنوائی ـ شام 4.30 بجے بیرن جان والتھائیم ملنے آئے اُن کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے۔
شام کو اپنا پلنگ خوابگاہ سے اُٹھوا کر دالان میں بچھوایا ـ ایک گھنٹے بعد پلنگ گول کمرے میں لانے کو کہا ـ وہاں حسبِ عادت منیزہ اُن کے بستر میں گھس کر اُن سے لپٹ گئی ـ اُس رات معمول سے ہٹ کر زیادہ دیر اُن کے ساتھ رہی ـ جب اُس کو ہٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ نہ ہٹی ـ اس پر انہوں نے انگریزی میں کہا ”اُسے اُس کی حِس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے” ـ اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم،پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین نے ملاقات کی ـ رات تقریباّ 8 بجے چودھری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے ـ ڈاکٹروں کے بورڈ نے اُن کا معائینہ کیا ـ اُس رات وہ زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے ـ 11 بجے رات انہیں نید آ گئی لیکن گھنٹہ بھر سونے کے بعد شانوں میں درد کے باعث جلد بیدار ہوگئے ـ ڈاکٹروں نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ ”دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور مَیں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا” ـ رات 3 بجے کے قریب اُن کی حالت اچانک پھر خراب ہو گئی ـ انہوں نے اپنا پلنگ گول کمرے سے واپس خواب گاہ میں رکھوایا۔ 1938ئ،اپریل 21، بروز جمعرات صبح ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع فجر کی نماز ادا کرنے مسجد گئے ہوئے تھے تو انہیں پھر شدید درد ھوا جس پر انہوں نے ”اللہ” کہا اور پھر…5 بجکر 14 منٹ پر… اللہ کو پیارے ہوگئے… انا للہ و انا الیہ راجعون ـ 5 بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اُٹھایا گیا ـ اسلامیہ کالج کے گراونڈ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ـ سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد رات نو بجے کے بعد لاھور پہنچے ـ پونے دس بجے رات سپردِ خاک کر دئیے گئے۔یہ تاریخ کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہی عاشقوں کے لئے سند کی حثیت رکھتا ہے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ۔ 1877ئ،نومبر 9، بروز جمعہ شیخ محمد اقبال شیخ نور محمد کے ہاں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 1891ئ، اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے مڈل پاس کیا۔ 1893ئ،مئی 4، کریم بی بی سے پہلی شادی ہوئی۔
۔ 1893ئ،مئی 4،اسلاچ مشن ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ 1895ئ، اسکاچ مشن ہائی اسکول (جو اب کالج بن چکا تھا) سے ایف اے پاس کیا اور اعلٰی تعلیم کے لیے لاھور منتقل ہوگئے۔ 1897ئ، گورنمنٹ کالج لاھور سے بی اے پاس کیا۔ 1899ئ، گورنمنٹ کالج لاھور سے ایم اے (فلسفہ) پاس کیا۔ 1899ئ،مئی 13، یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں میکوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ 1901ئ،جنوری 1، اسلامیہ کالج لاھور میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1902ئ،اکتوبر 13، گورنمنٹ کالج لاھور میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1905ئ،ستمبر 1، اعلٰی تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ 1907ئ، میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1908ئ،جولائی 1، لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی ۔ 1930ئ، دسمبر، 29 مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت فرمائی۔ 1935ئ، جنوری ”بالِ جبریل” کا پہلا ایڈیشن تاج کمپنی لمٹیڈ لاھور سے شائع ہوا۔ 1935ئ، اکتوبر 13، وصیت نامہ لکھوایا ۔ 1936ئ، جولائی گورنمنٹ کالج لاہور کے مشاعرے میں شرکت کی جہاں انہوں نے فیض احمد فیض کو ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ” پڑھنے پر فیض احمد فیض کو بُلا کر بہت داد دی۔ 1937ئ، اپریل 27 انجمن حمایت اسلام لاھور کے صدر منتخب ہوئے۔ 1937ئ، مئی 28 قائد اعظم کو خط لکھا۔ 1937ئ، جون 21 قائد اعظم کو خط لکھا۔وقت کے ولی اللہ اقبال علامہ اور ڈاکٹر کے القابات سے معروف تو تھے ہی آپ کی ایک شناخت حکیم الامت بھی ہے۔ علامہ! علم سے بنے اور ڈاکٹر پی ایچ ڈی کرنے سے تو حکیم الامت کیسے بنے؟ ایک مرتبہ ڈاکٹرعبدالحمید جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے، ملاقات کے لئے تشریف لائے، دوران گفتگو سوال کیا، علامہ صاحب! آپ حکیم الامت کیسے بنے؟ علامہ صاحب نے فرمایا حکیم الامت آپ بھی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیسے؟ جواب دیا کہ میں نے گن کر ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا ہے، آپ بھی اس نسخہ پر عمل کریں آپ بھی حکیم الامت بن جائیں گے۔ علامہ اقبال کی تعریف آج دنیا بھر میں ہو رہی ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ علامہ اقبال کی زبان پر اللہ کی تعریف اور رسول کریمۖ کیلئے درود شریف کا ورد ہوتا تھا۔
ایک دن ملاقاتی گھر پر حاضری کیلئے گئے آپ آبدیدہ اور بہت زیادہ پریشان تھے۔ انہوں نے پریشانی کی وجہ پوچھی، کہنے لگے، ایک نوجوان ملاقات کے لئے آیا تھا، دوران گفتگو جناب محمدۖ، جناب محمدۖ کہتا رہا، میں اس بات پر پریشان ہوں جس قوم کے جوانوں کی یہ حالت ہے اس قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟ جبکہ ہمارا مستقبل آج ہمارے سامنے ہے۔ علامہ اقبال خود فلسفہ و منطق کے ماہر تھے، قرآن و سنت کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کرتے۔ انہوں نے دعوے اور خود اعتمادی سے یہ بات کہی ہے۔ اے منطق و کلام کے متوالو! اس کلام (قرآن مجید) کو پڑھو جو امی نبیۖ پر نازل ہوا۔ شاید تمہارا کام بن جائے، اے افلاطون و ارسطو کے شیدائیو! ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ہی ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا، لیکن لوح و قلم کے سارے راز ان پر منکشف ہو گئے، اسی وجہ سے اہل علم و عمل سے محبت تھی، ان کا کہنا ہے جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنت ہے اقبال ان کے قدموں پر ٹوپی تو کیا سر رکھنے کو تیار ہے اور ان کی محبت کے ایک لحظہ کو دنیا کی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتا ہے۔ حضرت اقبال رسول اللہۖ کے ساتھ ساتھ محبان رسول سے بھی بے حد پیار اور عقیدت سے پیش آتے، ان کا تذکرہ ہوتا تو ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی موجیں رواں ہو جاتی، ایک دن محب رسول غازی علم الدین شہید کا ذکر چلا تو علامہ اقبال فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ گئے آنکھوں سے آنسو ابھر آئے اور کہنے لگے ”اسی گلاں کر دے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا” یعنی ہم محض باتیں کرتے رہ گئے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔
غازی علم الدین کی طرح غازی عبدالقیوم نے کراچی میں گستاخ رسول نتھورام کو واصل جہنم کر دیا۔ مقدمہ چلا اس نے قتل کا اعتراف کر لیا تو عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ عدالت عالیہ نے فیصلہ برقرار رکھا، مسلمان ان کی رہائی کیلئے پرجوش تھے۔ علامہ اقبال کے پاس آئے کہ وہ وائسرائے کو سفارش کریں، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پوچھا کیا عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ نہیں، نہیں وہ تو اعلانیہ کہتا ہے ”میں نے جنت خرید لی ہے” جواب میں علامہ صاحب نے کہا پھر میں اس کے اجر و ثواب میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ وہ زندہ رہا تو غازی، مر گیا تو شہید پوری کرے خدائے محمد تیری مراد کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام پہنچے جو بارگاہِ رسول امیں میں تو کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام ہم پہ کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش! خلافت ہے جہان گیر تری