واشنگٹن (جیوڈیسک) پاکستان نے امریکی صدر باراک اوباما سے افغان پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے جس کے بارے میں خود امریکی فوجی جنرلز کو ڈر ہے کہ یہ کارآمد ثابت نہیں ہو گی۔
یہ بات ایک اعلیٰ پاکستانی دفاعی عہدیدار نے بتائی جس نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ پیغام لے کر امریکی دارالحکومت آیا تھے کہ “پاکستان چاہتا ہے کہ صدر اوباما اس پالیسی کا پھر سے جائزہ لیں”۔
اس سے قبل افغانستان میں اتحادی و امریکی افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈیونفورڈ نے منگل کو کانگریس کو بتایا تھا کہ فوج پر صدر اوباما کی جانب سے افغان سرزمین سے انخلاء کی ڈیڈلائن کے فیصلے کی حمایت کرنا ضروری نہیں۔
انھوں نے کہا” میرے خیال میں افغانیوں سمیت وردی میں ملبوس ہم سب اس حکمتِ عملی کو توجیح دیں گے جو کافی حد تک مبہم محسوس ہو”۔ صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی جنگی مشن 2014ء میں ختم کرنے جبکہ تمام فوجیوں کو دسمبر 2016ء تک واپس بلانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق پاکستانی دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان کو محسوس ہوتا ہے کہ امریکی کی فوجی انخلاء کی پالیسی میں تمام تر تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔
اس عہدیدار نے بتایا کہ انخلاء کے منصوبے کی بنیاد صدر حامد کرزئی سے نئی حکومت تک پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی، افغانستان کی جانب سے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط اور اس یقین دہانی پر تھی کہ افغان فورسز بین الاقوامی افواج کے جانے کے بعد ملک کو اکھٹا رکھنکے قابل ہوں گی۔
تاہم پاکستانی عہدیدار نے کہا” بتایا جائے کیا ان میں سے کسی ایک تقاضے کو بھی پورا کیا جاسکا؟۔ دوسری جانب امریکی گانگریس میں ری پبلکن سینیتر لن ڈسے گراہم نے خبردار کیا ہے کہ صدر اوباما کی افغان پالیسی کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان سے بہت جلد انخلاء سے ہمیں وہاں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور اس سے افغانیوں کی مدد نہیں ہوسکے گی۔ سینیٹ فارن ریلیشن کمیٹی کے سربراہ سینیتر رابرٹ میڈیز نے کہا کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء پر وہاں بھی عراق جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔