وزیر اعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کا دوہ امریکا کتنا کامیاب رہا ، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا تاہم اس دورے کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان نے دورہ امریکا میں عالمی برداری اور امریکی حکام پر مثبت تاثر چھوڑا ہے۔ امریکی صدر نے وائٹ ہائوس میں وزیر اعظم کا استقبال کیا اور دونوں رہنمائوں کے درمیان گرم جوشی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا ۔ ون ٹو ون ملاقات اور وفود کی سطح پر اوول آفس میں ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل رہی کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری کی فضا میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے اور پاک۔ امریکا تعلقات میں ایک نمایاں پیش رفت ہونے کی توقع رکھی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ ان معاملات پر تعاون مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے کلیدی ہیں۔اعلامیے کے مطابق امریکہ جنوبی ایشیا کو پرامن علاقہ بنانے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے خطے کی سکیورٹی بہتر بنانے اور انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں جو ابتدائی اقدامات کیے گئے ہیں صدر ٹرمپ نے ان کی ستائش کی۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں اور اس سلسلے میں اس سے مزید کام کرنے کو کہا جائے گا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک مضبوط تعلق کا راستہ افغانستان کے تنازعے کے ایک پرامن حل کے لیے مشترکہ کوششوں سے جاتا ہے۔اعلامیے کے مطابق پاکستان نے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے ان تمام گروپوں کے خاتمے کے لیے کارروائی کرے۔آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ بھی اس نشست میں وزیر اعظم کے ساتھ شریک تھے۔امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ پاکستان افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کررہا ہے ، نیز مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے امریکا نے ثالثی کی پیشکش کی ۔ جس سے مقبوضہ کشمیر کی عالمی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم بھارت روایتی طور پر ثالثی کی پیش کش کو منظور نہیں کرے گا ۔
اس سے قبل بھی مقبوضہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش دی جا چکی ہے لیکن بھارت نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا ۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان کے نائب نے ثالثی کی پیش کش کرچکے تھے کہ دنیا کے دیگر تنازعات کی طرح ہمارے دفاتر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔لہٰذا پاکستان اور بھارت کی جانب سے درخواست کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں درخواست دیں تو موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ مسئلہ کے حل کیلئے ثالثی پر تیار ہے۔کچھ عرصہ قبل روسی صدر پیوٹن نے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی تھی۔ایرانی وزیر خارجہ بھی بھارت پاکستان کے مابین بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر مسئلے کو حل کرنے کیلئے ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارت پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات لازمی ہے او ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں ممالک اپنے پیچیدہ اور دیریانہ مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔جواد ظریف نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو ایران مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک میں ثالثی کیلئے تیار ہے۔امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں مدد کرسکا تو مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لئے مدد کرنا پسند کروں گا۔وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر سے برصغیر میں امن کے حوالے سے کردار ادا کرنا کی درخواست کی ۔وزیر اعظم نے امریکی صدر سے پاک۔ امریکا تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور تعلقات میں بہتری کی اہمیت پر زور دیا ۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی ٹیلیویژن فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ” شکیل آفریدی کا معاملہ پاکستان کے لیے حساس ہے۔ کیوں کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان کو خفت کا سامنا کرنا پڑا جو امریکہ کا اتحادی تھا اور جس نے 75 ہزار جانوں کی قربانی دے رکھی تھی۔ان کے بقول پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی جب خود امریکہ کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کر رہی تھی، تو پھر ایک شہری کی طرف سے ملنے والی اطلاعات پاکستان کے ساتھ شیئر نہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اس سوال پر کہ آپ وزیراعظم ہیں شکیل آفریدی کو رہا کر سکتے ہیں، تو وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت میں وزیراعظم کو فیصلوں میں اتنا اختیار بھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ایک فعال حزب اختلاف موجود ہوتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے میں ہم بھی کچھ لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کریں جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات ہو سکتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت جوہری ہتھیار ترک کر دے تو پاکستان بھی کر دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کسی جوہری ایڈوینچر کے متحمل نہیں ہو سکتے یہ تباہی کو دعوت دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔کشمیر کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع کشمیر ہے اور امریکہ سپر پاور ہونے کے ناطے بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت اگر نہ بھی چاہے کہ کوئی تیسرا فریق اس میں حصہ دار بنے تو بھی صدر ٹرمپ اور امریکہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان اور امریکہ حقیقی اتحادی ہیں، افغانستان میں امن دونوں کا مشترکہ مقصد ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے طالبان امریکہ یا مغربی دنیا کے لیے خطرہ نہیں ہیں یہ مقامی تحریک ہے۔ اگر افغانستان میں انتخابات کے بعد طالبان بھی حکومت کا حصہ ہوں تو پھر یہ پورے افغانستان کی نمائندہ حکومت ہوگی”۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹر پیغام میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی وزیراعظم کے وفد میں شامل ہوئے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا دورہ کیا۔ پینٹاگون میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکا کے قائم مقام وزیر دفاع رچرڈ اسپینسر سے ملاقات ہوئی۔ترجمان پاک فوج کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سے چیف آف اسٹاف جنرل مارک اے ملے سے ملاقات کی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کااستقبال امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ نے کیا۔ عسکری قیادت و امریکی حکام کے درمیان اہم موضوع خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کے کردار اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا بڑا مسئلہ بنا ہوا اور امریکا،پاکستان سے مزید تعاون کا خواہاں ہے۔پاک۔ امریکا عسکری تعلقات میں ڈیڈ لاک ختم ہونے اور بڑی توقعات فی الوقت نہیں کی جاسکتی تاہم دونوں عسکری حکام کی ملاقات اہمیت کی حامل تھی۔
وزیراعظم پاکستان نے دورہ امریکا میں پہلی بار اپنی نوعیت کا جلسہ عام کا بھی انعقاد کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ و امریکن کیمونٹی نے صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل امریکا میں جلسہ منعقد کئے جانے پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ۔ کیونکہ عمومی طور پر پاکستان کی جانب سے جب بھی کوئی سربراہ مملکت آتا ہے تو ۔ عموماََ کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کی جانب سے امریکی دورے کے دوران اپنی مملکت کے شہریوں سے محدود پیمانے پر ملاقات تو ہوتی رہی ہیں۔پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بھی ان کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں ان کی پارٹی کی امریکہ کی شاخ سے منسلک افراد، بزنس کمیونٹی اور با اثر شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔امریکہ میں سیاسی جلسہ منعقد کرنا پاکستان میں ایسا کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ واشنگٹن میں قائم انڈس نامی تھنک ٹینک سے منسلک عنبر جمیل کہتی ہیں کہ ”امریکی معاشرہ انتہائی سٹرکچرڈ اور بااصول ہے جہاں احتساب اور شفافیت کا مظبوط نظام رائج ہے اس لیے اس قسم کی تقریب کے انعقاد سے پہلے ضروری ہے کہ اکاونٹس، ریگولیٹری اور قانونی ضابطے مکمل کیے جائیں اس کے لیے بہت سے مراحل ہیں جن سے گزر کر ہم اس ایونٹ کو منعقد کروا سکیں گے اس کے لیے پراجیکٹ مینیجمنٹ کے تمام اصول لاگو ہوں گے جن پر ہمیں عمل کرنا ہو گا۔”کسی بھی پاکستانی سربراہ مملکت کی جانب سے یہ پہلا سیاسی جلسہ تھا ۔ جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ ان میں ایسے پاکستانی بھی شامل تھے جو اب امریکا کے شہری بن چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب میں کہا کہ قوم پاکستان کو ہرسال تبدیل ہوتا اور اوپر جاتا دیکھے گی کیوں کہ طاقت ور کا احتساب شروع ہوچکا ہے۔ جیل سے باہر نکلنے کے خواہش مند لوٹا ہوا پیسہ واپس دیں اور جائیں۔ انہوں نے واشنگٹن ڈی سی کے اسٹیڈیم کیپیٹل ایرینا ون میں تحریک انصاف کے جلسے سے خطاب میں اپوزیشن رہنمائوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستانی کیمونٹی سے غیر روایتی خطاب میں اپوزیشن پر کڑا نشانہ بنایا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں معدنیات کے اربوں ڈالر کے ذخیرے موجود ہیں، یہاں تو سو سال تک بجلی کی کمی ہونی ہی نہیں چاہیے، اربوں ٹن کوئلہ تھر میں موجود ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ریکوڈک کا جرمانہ ہوا، نہیں پتا سپریم کورٹ نے یہ کنٹریکٹ کیوں ختم کیا؟ وہاں صرف ایک جگہ 200 ارب ڈالر کا تانبہ پڑا ہے، اس معاملے کے پیچھے بھی کرپشن تھی پیسے مانگے جارہے تھے، بڑی کمپنیاں پاکستان میں اسی لیے نہیں آتیں، جن کمنپیوں سے ملا ہر کمپنی یہی کہتی ہے کہ ہم سے رشوت مانگی جاتی ہے لیکن اب کمپنیاں پاکستان ضرور آئیں گی۔ وزیر اعظم اسٹیڈیم کیپیٹل ایرینا ون میں اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنانے پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور وزیر اعظم کی تقریر کو نا مناسب و بے موقع قرار دیا۔ تاہم عمرا ن خان کے خطاب کو سننے و دیکھنے کے لئے اہم تقریب سے مریکا اسٹیبلشمنٹ و سول قیادت کو ایک پیغام پہنچاکہ پاکستان امریکا سے برابری کی سطح پر بات چیت کا خواہاں ہے۔
دورہ امریکا سے پاکستان نے زیادہ امیدیں وابستہ بھی نہیں کی تھی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی واضح طور پر بیان دے دیا تھاکہ پاکستان ، امریکا سے ایسے کوئی وعدے نہیں کرے گا جو وہ پورا نہ کرسکے ۔ دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری اور سول عسکری تحفظات کی نوعیت سے سب بخوبی آگاہ تھے کہ پاکستان ، صدر ٹرمپ کے سخت گیر رویئے کے سبب جنوبی ایشیائی پالیسی میںپاکستان کے کردار کو صدر ٹرمپ کے سامنے کھل کر بیان کیا گیا۔ سیاسی طور پر پاکستان کے سربراہوں کو امریکا کی جانب سے سیاسی مقاصد سے زیادہ فوجی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی روش رہی ہے۔ ماضی میں بھی سول قیادت کے ساتھ عسکری قیادت بھی امریکی سیکورٹی حکام سے ملاقات کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان میں جب بھی امریکی حکام سیاسی قائدین سے ملاقات کرتے ہیں تو فوجی قیادت کے ساتھ بھی ملاقات ضرور کی جاتی ہے ۔ خطے میں سیکورٹی صورتحال پر عسکری قیادت کی جانب سے بریفنگ اور پاکستان کی کوششوں و قربانیوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ امریکی دورے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے بجائے اس بات پر زیادہ توجہ کی ضرورت رہی کہ دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری اور غلط فہمیوںکو دور کیا جاسکے ۔امریکا کی اس وقت سب سے زیادہ توقع افغان امن عمل تنازع کا حل نکالنا ہے۔ پاکستان نے اپنے دستیاب اثر رسوخ کی بنا ء پر ہر ممکن کردار ادا کیا اور روس ، جرمنی کے تعاون کے ساتھ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا ۔ پاکستان صراحت سے کہہ چکا ہے کہ وہ افغان طالبان پر اتنا اثر رسوخ نہیں رکھتے کہ افغان طالبان ان کی ہر بات مان لیں ۔ اس لئے کابل انتظامیہ کو مذاکرات میں شامل کرنے کے لئے پاکستان نے اپنا محدود کردار ادا کیا ۔ افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے ٹھوس موقف کی بنا ء پر سنجیدگی سے کوشش کی کہ افغان طالبان ، کابل انتظامیہ کو بھی دوحہ مذاکرات میں شریک کرلیں ۔ افغان طالبان نے اپنے قریب ترین حلیف سعودی عرب اور متحدہ امارات سمیت قطر کی درخواستوں پراتنی نظر ثانی کی دوحہ میں ذاتی حیثیت میں ایک ایسے وفد سے مذاکرات کئے متفرق طبقات کی نمائندگی کے ساتھ حکومت کے نمائندے بھی شامل تھے ۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی کس کے مثبت نتائج دوررس ثابت ہونگے۔ افغان نمائندوں نے بھی افغانستان کے مستقبل کے لئے دوحہ بین الافغان مزاکرات کو اہم قرار دیا اور مستقبل میں مزید دور ہونے کی امید ظاہر کی تاکہ افغانستان میں پائدار و مستحکم امن کی راہ نکالی جاسکے ۔امریکی صدر نے وزیر اعظم سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران ایک بار افغانستان سے امریکی افواج میں کمی کا اظہار کیا اور پاکستا ن کے مثبت کردار کا اعتراف اور تعریف کی۔
امریکی دورے کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ امریکا ، خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کی اہمیت کو نظر اندازکی پالیسی پر نظر ثانی کریں گے ، کیونکہ خطے میں بھارتی کردار انتہائی محدود ہوچکا ہے ۔ پاکستان نے خطے میں اپنی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے بڑی محنت کی ہے ۔ افغانستان سے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے پاکستان کی پالیسیوں کو عالمی برداری نے بھی سراہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستان سے مذاکرات سے کترانے کی کوششوں کو عالمی برادری اور امریکا نے بھی واضح طور پر محسوس کیا ہے۔ امریکا کوشش کرتا رہا تھا کہ بھارت ، افغانستان میں اپنے عسکری کردار ادا کرے ، لیکن بھارت ، افغان طالبان سے خائف تھا کہ جب ڈیڑھ لاکھ جدید جنگی سازوسامان سے مسلح افواج افغان طالبان کو شکست نہیں دے سکیں تو بھارت میں تو اتنی استعداد بھی نہیں ہے مقبوضہ کشمیر میں نہتے مظاہرین کو کنڑول کرسکے۔لاکھوں بھارتی سورما ، نہتے کشمیریوں سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو تربیت یافتہ افغان طالبان سے جنگ کا تصور کرتے ہی یقیناََ انہیںخوف محسوس ہوتا ہوگا ۔ اسی لئے بھارتی فوجیوں کو افغانستان کے قبرستان میں جھونکنے کی امریکی خواہش ولالچ پر بھی بھارت تیار نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ صدر ٹرمپ نے تنگ آکر بھارت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا ۔ امریکا ، افغانستان میں بھارتی کردار کے لئے مختلف بڑے خواب بھارت کو دکھاتا رہا ، جنگی طیاروں کی بھارت میں تیاری و ٹیکنالوجی کی منتقلی ، بھاری جنگی ساز و سامان کے معاہدے ، جنوبی ایشیا میں بھارت کو تھانیدار بنانے کی کوشش اور پاکستان کے خلاف عالمی اداروں میں دبائو بڑھانا اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو نظر انداز کرنا بھی شامل رہا ہے۔
پاکستان نے خطے میں دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائی اور پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرکے ایک نا ممکن کارنامہ انجام دیا ۔بنیادی طور دورہ امریکا ،مثبت رہا ، کیونکہ دورے میں حسب توقع مسئلہ افغانستان، کشمیر کے ایشو پر بات ہوئی ، عافیہ صدیقی و شکیل آفریدی کے حوالے سے پیش رفت کا امکان ظاہر کیا گیا ۔ تجارتی اہداف بڑھانے کے لئے وزراء کے سطح پر مزید پیش رفت کا ذکر ہوا۔ امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان سرد مہری میں کمی آنے کی توقع ہے۔کشمیر پر ثالثی اور پاکستان دورے کی دعوت پاکستان کی اہم کامیابیاں ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان ملاقات سے امریکی صدرو امریکی اسٹیبلشمنٹ کو متعدد مسائل اور اس کے سدباب کے لئے لائحہ عمل اور روڈ میپ کے لئے راستہ ہموار ہونا اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی ملاقات عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں سرفہرست رہی۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں امریکی صدر نے پاکستان کے ساتھ افغان امن مذاکرات میں تیزی کے لیے معاونت کے وجہ سے پاکستان کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی کوشش کی۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی تھی کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں امریکی صدر نے پاکستان کے ساتھ افغان امن مذاکرات میں تیزی کے لیے معاونت کے وجہ سے پاکستان کے ساتھ تناؤ کم کرنے کی کوشش کی۔ اخبار کے مطابق گزشتہ سال ہی امریکی صدر نے پاکستان پر تنقید کے نشتر چلائے تھے لیکن گزشتہ روز پاکستانی وزیراعظم کو پوری شان و شوکت کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف اور گارڈین نے بھی امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات پر رپورٹس شائع کیں جس پر معتصب بھارتی اخبارات و ہندو شدت پسند ایک بار پھر پاکستان اور امریکا کے درمیان تناؤ کم ہونے پر آگ بگولا ہو گئے۔