پاکستان کی امریکا پر انحصار ختم کرنے کی پالیسی

Shahid Khaqan Abbasi

Shahid Khaqan Abbasi

تحریر : محمد صدیق پرہار
عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ وقت گزرگیا ہے جب پاکستان اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے امریکا پر انحصار کیا کرتا تھا۔ دنیا کو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان پرکسی قسم کی پابندی لگانانہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کومتاثرکرے گی بلکہ اس سے خطے میں بھی عدم استحکام پیداہوگا۔انہوںنے کہا کہ اگرایک ذریعہ بندہوجائے توپھرہمارے پاس دوسرے ذرائع سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ممکن ہے اس کی لاگت زیادہ ہوہوسکتاہے کہ اس کے لیے ہمیں مزیدوسائل خرچ کرناپڑیں۔لیکن ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اوریہ کہ ہم نے ان تمام لوگوں پرزوردیا ہے جن سے ہم ملے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری فوج میں امریکی ہتھیاروںکابڑانظام ہے لیکن ہم دیگرذرائع بھی استعمال کررہے ہیں۔ہمارے پاس چینی اوریورپین سسٹمزبھی ہیںاورپہلی بارہم نے روسی جنگی ہیلی کاپٹرشامل کیے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرامریکی نائب صدرمائیک پینس کے ساتھ ہونے والی ملاقات بہت تعمیری تھی۔اس موقع پرامریکی صدرٹرمپ کے ساتھ ان کے استقبالیہ میںمختصرملاقات بھی ہوئی تھی۔اکیس اگست کوافغانستان اورجنوبی ایشیاکے لیے اپنے پالیسی بیان میںٹرمپ کی جانب سے پاکستان پرسخت تنقیدکے بعددونوں اتحادیوںمیں پہلی باریہ اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ٹرمپ کے ساتھ شیڈول ملاقات طے نہیں تھی درحقیقت نائب صدرپینس کے ساتھ بھی ملاقات کاکوئی شیڈول نہیں تھا۔بلکہ یہ ملاقات ان کی درخواست پرہوئی تھی۔اقوام متحدہ کادورہ بنیادی طورپرجنرل اسمبلی میں اپناموقف پیش کرناتھاوزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ پینس کے ساتھ ملاقات میںجنوبی ایشیاکے بارے میں ٹرمپ کے پالیسی بیان پراپنے خدشات کااظہارکیاگیاکہ اس بیان کے بعدپاکستان اورامریکاکے تعلقات کاکیامطلب ہوگا۔وزیراعظم نے کہاکہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ کی جنوبی ایشیاکی پالیسی پربھی تبادلہ خیال کیااورخواجہ آصف نے ٹیلرسن کوبتادیا کہ تمام دہشت گردوں اورعسکری گروپوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان زیروٹالرنس رکھتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گردگروپ کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اورافغانستان میںامن کے لیے دہشت گردوں کوتباہ کرناہمارے مشترکہ مفادمیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم شراکت دارہیں۔اوراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںجس سے بھی ملے ہیں ان سب پرزوردیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے زیادہ کوئی امن کاخواہاں نہیں ہے۔پاکستان افغانستان کے مسئلے کاپرامن حل چاہتاہے۔انہوںنے خبردارکیا کہ افغانستان کے معاملات میںبھارت کوشامل کرنے کی امریکی خواہش کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔ہم کسی بھئی چیزبالخصوص افغانستان کے مسئلے کے حل میںمدددینے کے لیے پاکستان امریکاکے تعلقات میں بھارت کی شمولیت پریقین نہیںرکھتے۔ہم یہاں پربھارت کاکردارنہیں دیکھتے۔بھارت کے امریکاکے ساتھ تعلقات ہیں یہ تعلقات بھارت اورامریکاکے ساتھ ہوناچاہییں۔پاکستان امریکااورکسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ برابری کی بنیادپررتعلقات یاشراکت چاہتاہے۔ان کاکہناتھا کہ ہماری خواہش ہے کہ امریکاکے ساتھ مل کرعلاقائی اورعالمی مسائل کوحل کیاجائے۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہاہے۔اورہم نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے دولاکھ افواج کوتعینات کررکھا ہے۔اس جنگ میںہماری فوج کے ٦٥ ہزارجوان اورافسران شہیدہوئے ہیں۔اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں سمیت اکیس ہزارشہریوںنے بھی اپنی جانوںکی قربانی دی ہے۔تقریبا٣٥ہزارافرادشدیدزخمی ہوئے ہیں۔وزیراعظم کاکہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم سے زیادہ کسی نے قربانیاںنہیں دیں۔

جب کہ ہم یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑرہے ہیں۔اس جنگ میں پاکستان نے ایک سوبیس ارب ڈالرسے زیادہ مالی نقصان اٹھایا۔یہ ایک بہت مشکل جنگ ہے۔لیکن ہماری افواج بہتراندازسے لڑرہی ہے۔ اس سے پہلے مری میں ایک کالج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کاکہناتھا کہ آج ملک کومختلف مسائل درپیش ہیں مگراللہ کاکرم ہے کہ ہماراشماردنیاکے ان ممالک میںہوتاہے جن کودنیامیں عزت اوروقارسے دیکھاجاتاہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ ملک میں جمہوری اقدارکومضبوط کیاجائے اورہم ان کے ذریعے ہی ملک وقوم کودرپیش مسائل کاحل چاہتے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ہم نے اپنی محنت سے یہ طاقت حاصل کی ہے۔ہم ملک کادفاع کرناجانتے ہیں پاکستان دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہاہے۔امریکی محکمہ خارجہ ترجمان نے بلوچستان میں جھلی مگسی مین واقع فتح پورشریف کے صوفی بزرگ کے مزارپرخودکش حملے کی مذمت کی ہے۔انہوںنے اپنے بیان میںکہا کہ خطے بھرمیںانسداددہشت گردی کی جاری کوششوںمیں امریکاحکومت پاکستان اوراپنے دیگرشراکت داروںکے ساتھ مل کرکام کررہاہے۔دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ہم پاکستان کے عوام اوروسیع تر جنوبی ایشیاکے خطے کے ساتھ کھڑے ہیں۔وائس آف امریکاکی طرف سے پوچھے گئے اس سوال پرآیاپاکستان افغان سرحدکی مشترکہ نگرانی کے نظام کی پیشکش کے بعدکیامشترکہ آپریشن کابھی خیرمقدم کرسکتاہے وزیرخارجہ خواجہ آصف کاکہناتھا کہ ہم یہ پیشکش پہلے ہی کرچکے ہیں۔ہم نے تین دن پہلے ہی جب ہمارے چیف آف آرمی سٹاف کابل کے دورے پرتھے ان کوپیشکش کی کہ وہ ہمارے ساتھ معلومات کاتبادلہ کریں۔ہم ان کواپنے ساتھ ہیلی کاپٹرپربٹھائیں گے وہ ہمیں بتائیں جہاںجاناہے۔ہم جائیں گے ،اگروہ ہم سے چاہتے ہیں ہم ان کاکھوج لگائیں ہم لگائیں گے۔اگروہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم کوئی ایکشن لیں توہ جوبھی اقدام تجویزکریں گے ہم وہ اقدام لیں گے۔لیکن انہوںنے کہاکہ محض کھوکھلے الزامات قابل قبول نہیں۔اگرافغان ایسے ایکشن کاحصہ بنناچاہتے ہین تومشترکہ ہوجانے دیں۔وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پوری یکسوئی سے دہشت گردوںکوہدف بنارہے ہیں۔امریکادہشت گردوںکے مقامات کی نشاندہی کرے ہم بمباری کریںگے۔یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم ولی ہیں شایدماضی میں ہم سے بھی غلطیاںہوئی ہوں لیکن صرف پاکستان کوموردالزام نہ ٹھہرایاجائے۔خواجہ آصف کاکہناتھا کہ ملااخترمنصورپرحملہ امن بات چیت کوسبوتاژکرنے کے لیے تھا۔درون حملے میںلیڈرکی موت کے بعدسے طالبان پرپاکستان کااثرکم ہواہے۔طالبان اتنااثرنہیں رہاجتناہواکرتاتھا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکاکے ساتھ باہمی احترام پرمبنی تعلقات چاہتے ہیں۔

پاکستان اورامریکاخطے میں امن، استحکام اورخوش حالی کے مشترکہ مقصدکے لیے کام کررہے ہیں۔پاکستان دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوںبارے بہت فکرمندہے۔دہشت گردوںکی زیادہ ترمحفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے غیرمنظم علاقوںمیں ہیںجوملک کاچالیس فیسدسے زائدہے۔ وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ حالیہ مہینوںمیں پاکستان میں دہشت گردی کے کئی حملوں کے تانے بانے افغانستان میںملتے ہیں۔جب کہ ہماری مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوںمیں بہت اچھاکام کیاہے۔دہشت گردوںکے خلاف لڑائی میں پاکستان جیساعزم اورکامیابیاں کسی دوسرے ملک کی نہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ انہوںنے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدکاچھ سوچالیس کلومیٹرعلاقہ ایساہے جس میں افغانستان کی طرف سے کوئی نگرانی نہیںکی جارہی ہے۔اوریہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے۔اس وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ پوری سرحدپرباڑلاگانے کافیصلہ کیا ہے۔ان کاکہناتھا کہ باڑلگانے اورافغان پناہ گزینوںکوواپس افغانستان بھجواکرآبادکرنے میںامریکاکومالی وسائل فراہم کرنے چاہییں۔وزیرخارجہ نے ماضی کی متعددمثالیں دیتے ہوئے امریکاکوخبردارکیا کہ امریکاویت نام کی جنگ میں بھی شکست سے دوچارہواتھاا وراسے افغانستان میں بھی شکست کاسامناہے۔اوراب وہم خفت میں پاکستان پربلاوجہ الزام لگارہا ہے۔خواجہ آصف نے لاس ویگاس میںہونے والے حالیہ قتل عام کے وقعے کاذکرکرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑاالمیہ ہے۔تاہم امریکااسے دہشت گردی کاواقعہ قرارنہیںدیتااوریہ بات ناقابہل فہم ہے۔پاکستان امریکاسے کسی مالی یامادی فائدے کاخواہاںنہیں۔لیکن پاکستان چاہتاہے کہ امریکادہشت گردی کوختم کرنے اورعلاقے میںقیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوںکااعتراف کرے۔پاکستان میں موجودمدرسوںکاذکرکرتے ہوئے خواجہ آصف نے انہیں دنایکی سب سے این جی اوزقراردیا۔ان کاکہناتھا کہ اس وقت پاکستان میںبیس ہزارکے لگ بھگ مدرسے موجودہیں جنہوںنے بچوںکورہائش ،خوراک اورتعلیم فراہم کرکے گراںقدرخدمات انجام دی ہیں۔قومی اسمبلی میںنکتہ اعتراض پرپی ٹی آئی کی خاتون راہنماشیریںمزاری نے کہا کہ وزیرخارجہ نے امریکاکوحقانی نیٹ ورک کے خلاف مشترکہ آپریشن کی پیشکش کی ہے۔جب کہ دوسری جانب امریکاانڈیاکااسٹرٹیجک پارٹنرہے۔انہوںنے خدشہ ظاہرکیاکہ اگرامریکاکے ساتھ مشترکہ کارروائی کی گئی توتمام حساس معلومات امریکابھارت کوفراہم کردے گا۔پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کاکہناتھا کہ وزیرخارجہ ایوان کوبتائیں کہ کس طرح امریکاکویہ پیشکش کی گئی۔جب کہ امریکاپاکستان کودہشت گردقراردے رہاہے۔توپھرہم ایسی پیش کش کس حیثیت سے کررہے ہیں۔

ایک طرف وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کہتے ہیں کہ اب وہ دن نہیں رہے جب پاکستان امریکاپرانحصارکیاکرتاتھا دوسری جانب وزیرخارجہ خواجہ آصف امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔بظاہرتویہی معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اوروزیرخارجہ میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ظاہری طورپردونوں وزراء کے خیالات وبیانات میں بہت بڑاتضادنظرآرہا ہے۔جب پاکستان نے امریکاپرانحصارختم کردیا ہے تووزیرخارجہ نے کس لیے مشترکہ آپریشن کی پیش کش کی ہے۔وزیراعظم کی امریکاپرانحصارختم کرنے اوروزیرخارجہ کی امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش پرغورکیاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں وزراء کی باتوںمیںکوئی تضادنہیں ہے۔بلکہ وزیرخارجہ کی پیش کش پرمزیدغورکیاجائے توخواجہ آصف نے بھی وہی بات کہی ہے جوشاہدخاقان عباسی نے کہی ہے۔دونوں وزراء کی اس بات میں فرق یہ ہے کہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے یہ بات واضح اوردوٹوک الفاظ میں کہہ دی ہے جب کہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے یہی بات ایک اوراندازسے کہی ہے۔

وزیراعظم نے جن الفاظ میں یہ بات کہی ہے وہ توسب کوسمجھ آگئی ہے جب کہ وزیرخارجہ نے جوبات کہی ہے اس کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکادہشت گردوںکے ٹھکانوںکی نشاندہی کرے ہم کارروائی کریں گے۔اگرامریکاکوہم پراعتمادنہیں کہ ہم اس کے بتائے گئے ہدف پرکارروائی نہیںکریں گے تووہ ہمارے ساتھ جہازمیں بیٹھ جائے جہاں وہ کہے گاوہاں ہی کارروائی کریں گے۔خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکانشاندہی کرے ہم کارروائی کریں گے یہ نہیں کہا کہ امریکاخودکارروائی کرے۔ہم خودکارروائی کریں گے کہہ کروزیرخارجہ نے امریکاسے کہہ دیا ہے اب اسے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پرازخودکارروائی کرنے کاکوئی اختیارنہیں۔اب وہ دہشت گردوںکوختم کرنے کے لیے ڈرون حملے کرسکتاہے اورنہ ہی کوئی اورکارروائی۔خواجہ آصف نے بھی زبان سے الفاظ نکالے بغیرامریکاکوواضح پیغام دے دیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں پاکستان امریکاپرانحصارکرتاہے اورنہ اعتماد۔پہلے بھی ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوںکے خلاف اپنی بنائی گئی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے خودکارروائی کرتے ہوئے واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ہماراملک ہے، ہمارے علاقے ہیں، ہم خودہی کارروائی کریں گے۔امریکاکوپاکستان میںمداخلت کاکوئی اختیارنہیں ہے۔البتہ امریکاکومشترکہ آپریشن کی پیش کش بارے شیریںمزاری کے خدشات درست ہیں۔سچ تویہ ہے کہ پاکستان نے امریکاپرانحصارختم کرنے کی پالیسی کا آغازوزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے اعلان کے ساتھ ہی نہیں کردیا بلکہ اس پالیسی کے تحت ہم نے اس وقت بھی امریکاپرانحصارختم کردیاتھا جب پاکستان کی امدادکے لیے اس کابحری بیڑاپاکستان کی حدودمیں بروقت نہ پہنچاتھا۔

پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام کاآغازکیاتھا۔پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان نے امریکی دبائواورلالچ کومستردکرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرکے دنیاکی پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہونے کااعزازحاصل کیاتھا۔ پاکستان نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے کئی سالوں کے بعدپہلی مرتبہ روس کادورہ کیاتھا۔ ہم نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھاجب ہم نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاتھا۔ہم نے امریکاپرانحصاراس دن بھی ختم کردیاتھا جب پاکستان اورچین نے اقتصادی راہداری منصوبے پردستخط کیے تھے۔پاکستان نے امریکاکے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اورورلڈ بینک پرانحصاربھی ختم کردیاہے۔دوسروں پرانحصارختم کرکے ہی قومی حمیت اوروقارکودنیاکے سامنے منوایاجاسکتاہے۔سی پیک کی تکمیل کے بعدکسی پرانحصارکرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔امریکامیں تعینات پاکستانی سفیراعزازچوہدری نے ڈپلومیٹ میگزین کے زیراہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکادہشت گردی کے خلاف جنگ میں حساب کتاب کی باتیںکرتاہے۔اس نے افغان جنگ میں ہماری بندرگاہ ۔ہماری سڑکیں، انفرانسٹرکچر استعمال کیالیکن ہم نے کبھی حساب کتاب نہیں کیا۔اعزازچوہدری نے بھی کہہ دیا ہے کہ امریکادہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی طرف سے دی گئی سہولتوںکونظراندازکرتے ہوئے حساب کتاب کی باتیںکرتاہے اس لیے امریکاپرانحصارکیاجاسکتاہے اورنہ ہی اس پرانحصار کریں گے۔

Muhammad Siddique Prihar

Muhammad Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com