تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم نیا سال 2018 ءشروع ہو چکا ہے، یہ پاکستان میں الیکشن کا سال ہے مُلک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں انتخابات کے لئے کمر کس رہی ہیں مگر ایسے میں امریکی صدر کا پاکستان کو سال کے پہلے ہی رو ز ٹوئٹ پیغام میں ضرورت سے زیادہ دھمکی آمیز لہجے میں پاکستان کی اعلیٰ سو ل اور عسکری قیادت کو دبا و ¿ میں لینے کا پیغام دیا جانا مُلکی سیاسی ما حول میں ایک طوفان برپا کرگیاہے بعض کے نزدیک یہ ٹرمپ کا ڈرا مائی انداز ہے جبکہ بہت سوں کا قوی خیال یہ ہے کہ یہ موجودہ صدی کا ایک ایسا خبطی امریکی صدر ہے جو نارمل سے زیادہ نفسیاتی کیفیات میں کئے گئے اپنے فیصلوں پر فوری عمل درآمد کراتاہے سو ٹرمپ کی حالیہ دھمکی کو سنجیدہ لیا جا ئے اِس لحاظ سے پاکستان میں کسی بھی امریکی کارروا ئی کے امکان کو رد کیا جانا ہماری بہت بڑی غلطی ہوگی پاکستان کو ہر حال میں اپنے اور خطے کے دوست ممالک کے ساتھ مل کر اپنے دفا ع کو ممکن بنانا ہوگا ، تب ہی پاکستان کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری اور سا لمیت کا ہر حال میں دفا ع کریں گے،جہاں کابینہ اجلاس میں ٹرمپ کے بیان پر اظہار مایوسی اور سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی تو وہیں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاویدباجوہ نے بھی برملا کہا ہے کہ دھمکانے والے سُن لیں جس مُلک میں عظیم والدین اور بہادر بیٹے ہوں کو ئی بھی اِس کا بال بیگا نہیں کرسکتاایسی فوج کا سربراہ ہوں جس کے جوان ہر دم وطن کے لئے جان دینے کو تیار ہیں،کو ئی رقم اِن بہادروں کی حب الوطنی او رقربانیوں کی قیمت نہیں چکاسکتی ہے ہما رے شہداءکی قربانیاں ہی ہمیں پرا من اور مستحکم پاکستان کی جا نب لے جا رہی ہیں۔
چلیں، یہ بہت اچھا ہوا کہ بالآخرآج ستر سال بعدپاک چین اقتصادی راہ داری کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن پاکستان کو امریکی دوستی کا انجام سمجھ آگیاہے،قبل اِس کے کہ امریکا یار مار کی جا نب سخت ترین راہ اختیار کرے اِسے پاکستان سے اپنے سخت رویئے کا موازانہ خود کرنا ہوگا ورنہ ؟ پاکستان سے دوستی کے خاتمے کا امریکا کو ہی سب سے زیادہ نقصانات برداشت کرنے ہوں گے جس کا امریکا خود ذمہ دار ہوگا، پاکستان کا کیا ہے ؟یہ روکھی سوکھی پر بھی گزار کرلے گا مگر امریکا تر نوالہ کھا کر بھی دہشت گردوں کی دہشت گردی کے نشا نے پر رہے گا آج امریکا جس شان و شوکت سے بے فکری کی زندگی گزار رہاہے اور دنیا میں اپنی غنڈہ گردی اور سپُر پاور کا برہم قا ئم رکھا ہوا ہے یہ سب صر ف اور صرف پاکستان ہی کے مرہونِ منت ہے ورنہ نا ئن الیون کے بعد امریکا دنیا کے سامنے ایک ڈراسہما اور انتہائی ڈرپوک مُلک بن کر اُبھرا تھا اَب دیکھتے ہیں کہ امریکا پاکستان سے دوستی ختم کرنے کی روش پر قا ئم رہ کر کب تک عالمی دہشت گردوں سے مقا بلہ کرتا ہے اور اپنے سُپر پاور کی چوہدراہٹ قا ئم رکھتا ہے۔
یقینا یہ ایک اچھی بات ہے ہمیں سترسال بعد سہی مگر چلیںایک صدی ہونے سے تیس سال پہلے ہی اپنی خودمختاری اور سا لمیت کا احساس تو ہوگیاہے ورنہ ابھی نہ ہوتا تو ہم کیا کرسکتے تھے وہی فقیروں والی ما نگتے کھاتے اور کمر پر ہاتھ صاف کرتے اپنے قیام کی ایک صدی بھی پوری کرلیتے مگر چلیں دیر آید درست آید ، ہمیںلگ پتہ گیاہے کہ ہم بھی زمین خدا پر کو ئی آزاد اور خودمختار قوم ہیں جو اپنا فیصلہ کرنا اور اپنی مرضی سے اپنی ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنی والی ایک ایٹمی قوم بن گئی ہے۔
ایسے میں ساری پاکستا نی قوم کی اللہ سے ایک یہی دُعا ہے کہ اللہ کرے کہ آج جس طرح امریکی خبطی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف ٹوئٹ پر ہما ری اعلی سول اور عسکری قیادت ایک صفحہ پر دکھا ئی دے رہی ہے تو یہ آنے والے دِنوں میں مزید امریکی دباو ¿ اور دھمکیوںکو خاطر میں نہ لا ئے اور امریکا کے ہر دھمکی آمیز وار پر ڈٹ جا ئے اور اِس کی آنکھ میںآنکھ ڈال کر بہادری سے تُرنت جواب دے تو امریکا پر لرزہ طاری ہوجا ئے گا اور وہ ہم سے ڈرتے ڈرتے ایسے ہی باتیں کرنے لگے گا آج جیسے امریکا بہادر ڈرتے ہو ئے شمالی کوریاسے با تیں کرتا ہے، ما ضی میں ہماری کمزوری یہ تھی کہ ہم ہر امریکی دھمکی اور دباو ¿پر بھیگی بلی بن جا یا کرتے تھے اور جب بھی یہ جیسا کہتا رہاہم ویسا ہی کرتے رہے اِس کی ماضی کی حرکتیں بھی نا قابلِ برداشت تھیں مگرتب کچھ ہماری مجبوریاں بھی ضرور تھیں کہ ہم اِس کے ہر حکم کو بجا لانا پاک امریکا دوستی کے لئے بہتر سمجھتے رہے مگر اَب ایسا نہیں ہے جبکہ اَب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ہیں یا کھڑے ہونے کی تمنا کرچکے ہیں اور اپنی ترقی اور خوشحالی کی سمت خود متعین کرنے کے قابل ہوگئے ہیںتو اَب ایسے میں ہمیں خود بھی یہ نہیںچا ہیئے کہ اَب ہم امریکی امدادوں کی جا نب دیکھیں اور اِس کے ہر نا جائز حکم اور دھمکی پر اِس کی مر ضی کے عین مطا بق عمل کریں اور ہر بارامریکا ہمیں ڈومور ، ڈومور کی رٹ لگا ئے جا ئے اور ہم اپنا سب کچھ داو ¿ پر لگا کر برباد بھی ہوتے رہیںاور امریکا پھر بھی ہم سے ہی مزید ڈو مور ڈومور کا مطالبہ کرے ،اور ہمیں اپنا اتحادی کہہ کر ہمیں دنیا بھر میں ذلیل اور فقیر گردانتا پھرے اور ہم اِس کے ہر مشکل وقت میںاِس کے کام آکر بھی اِس کی نظر میں ذلیل اور خوار ہی رہیں۔
ٹھیک ہے امریکا اگر پاکستا ن کو255ملین ڈالر کی فوجی امداد بند کرتا ہے تو کر لے ہمیں اِس کی ضرورت نہیں اَب ہم اِس کے مانگے تانگے پرمزید نہیں لڑسکتے ہیں، کیا دوستی اور یاری میں ایسے طعنے دیئے جا تے ہیں کہ اپنا اُلو بھی سیدھا کئے جا و اور یار کو دنیا کے سا منے فقیر اور مجبور جان کر ذلیل بھی کئے جا و ¿ ایسی یاری اور امریکی مفادپرستا نہ دوستی سے اَب باز آئے ، اگر امریکا کو یہی کچھ کرنا ہے تو جا ئے اپنی جنگ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ خود لڑ لے اِسے جلد پتہ لگ جا ئے گا کہ جنگ میں قربانیاں پاکستان نے کیسے پیش کیںہیں؟ جب یہ اپنی جنگ افغانستان اور گردونواح میں لڑے گا اور اِس کے امریکی سپاہی مریںگے تو پھر معلو م ہوگا کہ پاکستان نے اِس کی جنگ میں اپنی کتنی قیمتی اِنسا نی جانوں کی قربانیاں پیش کرکے امریکا کو جینے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔
بہرحال،آج خبطی امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ جس امریکی امداد کا پاکستان کو طعنہ دے رہاہے پہلے تو معاہدے کے مطابق امریکی صدر پاکستان کو امریکا کی جا نب پاکستان کے نکلنے والے9ارب ڈالر واپس کرے جو آج امریکا دبا نے اورکھا نے کے چکر میں ہے پھر ہم اِسے ہی کیا ؟ ساری دنیا کو بتا ئیں گے کہ آج جس امریکی امداد کا خبطی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تذکرہ کررہاہے ہم نے امریکی امداد کو اِس کی دہشت گردی کی جنگ کا ہی حصہ بن کر کب اور کہاں کہاں کس طرح خرچ کی ہے۔ اگر اِس کے باوجود بھی امریکی صدر کوکو ئی شک ہے تو وہ ہمیں چھوڑے اور اَب اپنی دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ کو خود لڑ لے کہ اِس معلو م ہو کہ جنگ میں کس طرح جا نی اور مالی نقصان ہوتا ہے پھر کہے کہ امریکا نے پاکستان کو اِتنے ار ب ڈالر ز او ر اُتنے ارب ڈالرز کی امداد دی تھی دُہت تیرے کی ، امریکی صدر با تیں بہت کرتاہے، اَب خود اپنی امریکی افواج اور اتحادیوں کے ہمراہ امریکا دہشت گردوں کے خلاف فرنٹ لائن میں رہ کر جنگ لڑے گا تو لگ پتہ جا ئے گا کہ اِس کی (اور کس کی )ماں نے کتنا دودھ پلایا ہے۔؟؟ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com